بتیس سالہ ماریہ سینڈرز کو محسوس ہوا کہ بچے نے خاصی دیر سے حرکت نہیں کی۔ وہ کافی پریشان ہو گئی۔ برطانیہ کے ساحلی شہر، کنگسٹن اپون ہل کی یہ رہائشی خاتون حاملہ تھی۔ عنقریب زچگی تھی۔ وہ مقامی کمپنی میں کام کرتی تھی۔ شوہر، تیتیس سالہ کرس مستری تھا۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ یہ گھرانا خوشگوار وخوشحال زندگی گذار رہا تھا۔
تیسرا بچہ بھی بیٹی
کرس اور ماریہ کی خواہش تھی کہ تیسرا بچہ بیٹا ہو مگر جب ایکسرے سے پتا چلا کہ اب بھی بیٹی ہو گی تو وہ بالکل دل برداشتہ نہ ہوئے۔ وہ اپنی بیٹیوں سے بہت محبت کرتے تھے اور تیسری بیٹی کی آمد نے انھیں مزید خوشی سے بھر دیا۔ وہ ان والدین میں سے نہیں تھے جو بیٹوں کو بیٹیوں پہ ترجیح دیں۔ انھیں بیٹا پانے کی تمنا ضرور تھی، مگر جب وہ پوری نہ ہوئی تو تقدیر کے لکھے کو زندہ دلی سے قبول کر لیا۔
کرس اور ماریہ نے تیسری بیٹی کا استقبال کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے۔ ماریہ نے اپنی صحت کا پورا خیال رکھا تاکہ بیٹی تندرست و توانا جنم لے۔ وہ اچھی غذا کھاتی اور ورزش کرتی رہی۔ بچہ جب بڑا ہو جائے تو وہ حرکت کرنے لگتا ہے۔ ماں یہ حرکت محسوس کر سکتی ہے۔ یوں اسے اطمینان و سکون رہتا ہے کہ بچہ خیرخیریت سے پل بڑھ رہا ہے۔
پریشانی کا آغاز
یہی وجہ ہے ، جب ایک دن کئی گھنٹے بیٹی نے حرکت نہ کی تو ماریہ پریشان ہو گئی۔ شہر کا نامور اسپتال، ہل رائل انفرمری (Hull Royal Infirmary) قریب ہی واقع تھا۔ ماریہ نے وہاں فون کر کے ایمبولینس منگائی اور اسپتال پہنچی۔ ڈاکٹروں نے جدید مشینوں کی مدد سے اس کا معائنہ کیا اور اسے بتایا کہ بچی سانس لے رہی ہے۔ گویا وہ خیریت سے تھی۔ چناں چہ معالجین نے اسے گھر واپس بھیج دیا۔
ماریہ کی چھٹی حس مگر اسے خبردار کر رہی تھی کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ دراصل حاملہ ہو کر عورت بہت حساس ہو جاتی ہے کیونکہ وہ ہر حال میں اپنے بچے کی حفاظت چاہتی ہے۔ یہی حساسیت اسے غیر معمولی طاقتیں بھی بخشتی ہے۔ ماریہ کا خیال درست ثابت ہوا کیونکہ اگلے دن بھی کئی گھنٹوں تک بچی بے حس وحرکت رہی۔ مطلب یہ کہ بچی کو کوئی طبی خرابی یا مسئلہ لاحق ہو چکا، ورنہ پہلے وہ ہر گھنٹے بعد حرکت کرتی تھی۔ متوحش ہو کر ماریہ پھر اسپتال پہنچی۔ اب ڈاکٹروں نے اسے وہیں روک لیا اور بیڈ پہ لٹا کر خصوصی مشین کے ذریعے بچی کی نقل وحرکت نوٹ کرنے لگے۔ کئی گھنٹے تک واقعی اس نے کوئی حرکت نہیں کی جو پریشان کن بات تھی۔ ڈاکٹروں نے سیزری آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ بچی اگر کسی جان لیوا مسئلے میں مبتلا ہو چکی، تو دنیا میں لا کر اس کی جان بچائی جائے۔
فرینکی کا جنم
آپریشن کامیاب رہا اور فرینکی موریسن نے دنیا میں قدم رکھ دئیے۔دوران آپریشن ماریہ بے ہوش تھی۔ ہوش میں آئی اور اس نے اردگرد موجود شوہر، بہن ، ڈاکٹروں اور نرسوں کو دیکھا ، تو سب اسے افسردہ اور مایوس لگے۔ سمجھ گئی کہ بیٹی کی حالت ٹھیک نہیں۔اس نے آنسو بھری نگاہیں لیے کرس کو دیکھا اور بھرائی آواز میں پوچھا کہ بیٹی کیسی ہے؟شوہر محبوب بیوی کو اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ بتایا کہ بیٹی آئی سی یو میں ہے جہاں ہر لمحے اس پر رکھی جا رہی ہے۔ دراصل آپریشن کے بعد انکشاف ہوا تھا کہ فرینکی کے بدن میں صرف ’’دو چمچ‘‘ (ٹیبل سپون)کے برابر خون موجود ہے۔ جبکہ عام طور پہ نوزائیدہ بچے میں نو دس چمچ خون ضرور ہوتا ہے۔
زندہ کیسے رہی؟
گویا بچی کے جسم میں خون سے زیادہ تو پانی دوڑ رہا تھا۔ خون کی کمی ہی نے فرینکی کو اتنا زیادہ کمزور کر دیا کہ وہ حرکت کرنے کے قابل نہ رہی۔ اب بھی وہ آئی سی یو میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ ڈاکٹروں کو شدید حیرت تھی کہ اتنا کم خون رکھنے کے باوجود وہ زندہ کیسے رہی؟ فرینکی کے زندہ رہنے کو خدا تعالی کا کرم اور معجزہ قرار دیا گیا۔ جسم میںپانی کی فراوانی کے باعث خطرہ تھا کہ وہ اس کے جگر اور پھیپھڑوں میں داخل ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ڈاکٹروں نے سب سے پہلے اسے تازہ خون دیا۔ پھر سینہ چیر کر وہاں جمع پانی نکالا۔ یوں بیچاری بچی کو پیدا ہوتے ہی سنگین آپریشن سے پالا پڑ گیا۔ ڈاکٹروں کو مگر اب بھی یہ خوف تھا کہ فرینکی کسی بھی وقت مر سکتی ہے۔انھوں نے ماریہ اور کرس کو مطلع کیا کہ اسپتال میں پادری موجود ہے۔
معالجین اور نرسوں کا عام تاثر یہی تھا کہ بچی شاید ایک دن بھی زندہ نہ رہے۔گو ڈاکٹروں نے پیدائش کے فوراً بعد فرینکی کو نیا خون دے دیا تھا مگر اس نے کوئی اثر نہ دکھایا۔ ظاہر ہے،ماں کے خون میں جو تاثیر ہوتی ہے، وہ کسی دوسری خاتون کے خون میں نہیں ملتی۔ (نوزائیدہ بچی کے خون کا گروپ ماں اور باپ، دونوں سے مختلف تھا۔) ڈاکٹر نہیں جان سکے کہ ماریہ کا خون مطلوبہ مقدار میں بیٹی تک کیوں منتقل نہیں ہو ا؟ اسے عجیب وغریب طبیّ خرابی قرار دیا گیا۔
معذوری کا خطرہ
ڈاکٹروںنے کرس اور ماریہ کو یہ بھی بتایا کہ اگر کرشماتی طور پہ فرینکی بچ بھی گئی تو وہ ایک معذور کے مانند زندگی گذارے گی۔ ممکن ہے کہ اس کا دماغ متاثر ہو جائے اور وہ ساری عمر بچی ہی رہے۔ یا وہ چل پھر نہ سکے اور وہیل چئیر میں بیٹھے بیٹھے بیچاری کی زندگی گذرے۔ غرض بچی کا مستقبل حوصلہ افزا نہیں کافی صدمہ انگیز تھا۔ معذور ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹروں کو یقین تھا، فرینکی کے دماغ کو مطلوبہ خون نہیں ملا اور وہ صحیح طرح پرورش نہیں پا سکا۔ اس لیے انھیں ڈر تھا کہ دماغ کی نشوونما نہ ہونے سے فرینکی کسی بھی ناقابل علاج طبی خلل کا نشانہ بن سکتی ہے۔
حالت سنبھل گئی
رات دوسری بار فرینکی کو خون ملا، مگر اس کی حالت سنبھل نہ سکی۔ وہ بے حس وحرکت رہی۔ بس اس کا دل چل رہا تھا جو اسے زندہ رکھے ہوئے تھا۔ اسی لیے ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ بچی کو بذریعہ ہیلی کاپٹر لندن منتقل کر دیا جائے۔ وہاں جدید ترین آٓلات، مشینوں اور تجربے کار ڈاکٹروں کی موجودگی کے باعث امید تھی کہ فرینکی بچ جائے گی۔ جب فرینکی کو لندن لے جایا جا رہا تھا تو کرشماتی طور پہ اس کی حالت بہتر ہو گئی۔ وہ زیادہ سہولت کے ساتھ سانس لینے لگی۔ دل بھی نارمل رفتار سے دھڑکنے لگا۔ یہ عیاں تھا کہ خون کی بوتلیں فرینکی کے جسم میں مثبت اثرات سامنے لانے لگیں۔ چناں چہ ہیلی کاپٹر کا رخ واپس کنگسٹن اپون ہل کی جانب موڑ دیا گیا۔ماریہ بتاتی ہے:’’مجھے یقین تھا کہ میری راج دلاری زندہ بچ جائے گی۔ مجھے لگا تھا کہ وہ ایک جنگجو ہے اور اس نے تمام آفتوں کو شکست دے کر میرا کہا درست ثابت کر دیا۔‘‘
یہ واضح رہے کہ دنیا بھر میں روزانہ ہزارہا بچے کم وزن لیے پیدا ہوتے ہیں۔ بعض کے جسم میں مختلف وجوہ کی بنا پر خون کی مقدار بھی کم ہو سکتی ہے۔ لیکن پیدائش کے وقت جو حالت فرینکی کی تھی، وہ کروڑوں بچوں میں سے کسی ایک ہی کو نشانہ بناتی ہے۔ عموماً جو بچے محض دو چمچ خون اپنے جسم میں رکھیں، وہ دنیا میں آنے سے قبل ہی ماں کے شکم میں دم توڑ دیتے ہیں۔
مددگار ماں
فرینکی خوش قسمت تھی کہ اول اسے ذہین و مددگار ماں میسّر آگئی جس نے پل پل بیٹی کا خیال رکھا۔ اور جب بچی کی حالت بگڑی تو فی الفور معالجین کو مطلع کر دیا۔ دوسرے پیدا ہوتے ہی اس کا علاج شروع ہو گیا اور جدید طب کی وجہ سے وہ مرنے سے بچ گئی۔آج فرینکی والدین اور دو بہنوں کے ساتھ خوشگوار زندگی گذار رہی ہے۔ خوشیوں اور مسّرتوں سے بھرپور مستقبل اس کا منتظر ہے۔
معذور ہونے کی جو پیشن گوئی کی گئی تھی، وہ بھی کافور ہو چکی۔ فرینکی بھاگتی دوڑتی اور روزمرہ کام انجام دیتی ہے۔ ماریہ اور کرس اپنی شہزادی کے بچ جانے کو دعاؤں کا کرشمہ بھی قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کٹھن وقت میں اپنے ربّ کے حضور بہت دعائیں مانگی تھیں اور عاجز بندے بن کر اس کی کرم فرمائی کے طلبگار ہوئے ۔ اللہ تعالی تو رب العالمین ہیں، وہ رنگ، نسل ، مذہب سے ماورا ہو کر سبھی دُکھی دلوں کی آواز سنتے ہیں۔ اور صرف وہی یہ فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ کس انسان کی مدد کرنی ہے اور کس کی نہیں!
آنکھوں میں آنسو
جب صحت یابی کا عمل شروع ہوا تو فرینکی تین ہفتے ہل رائل انفرمری اسپتال میں رہی۔ معالجین نے پوری توجہ واحتیاط سے اس کا خیال رکھا۔ پھر اسے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ وہاں فرینکی کی ملاقات اپنی دو بہنوں، دس سالہ بروک اور پانچ سالہ مولی سے ہوئی۔ دونوں بہنیں ننھی منی بہن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ماریہ بتاتی ہے: ’’میں اور کرس چھ ماہ بعد فرینکی کو ان ڈاکٹروں سے ملانے لے گئے جنھوں نے اس کی دیکھ بھال کی تھی۔ صحت مند اور ہنستی مسکراتی فرینکی کو دیکھ کر سبھی معالجین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں خود کو بہت خوش قسمت تصّور کرتی ہیں کہ فرینکی جیسی خوبصورت اور زندہ دل بیٹی کی زندگی محفوظ رہی۔ یہ کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے جسے اوپر والے کا کرم بھی حاصل تھا۔‘‘
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زچگی سے دو ہفتے قبل فرینکی کو ماں کی طرف سے خون ملا تھا۔ اگر مزید چند دن اسے خون نہ ملتا تو اس کی موت یقینی تھی۔ اللہ تعالی نے بہرحال ماں اور بچے کے مابین خون، خوراک اور فضلے کے تبادلے کا ایسا بہترین نظام بنایا ہے کہ وہ عموماً بغیر کسی پیچیدگی کے کام کرتا ہے۔ شاذ ونادر ہی اس میں کوئی گڑبڑ جنم لیتی ہے جیسا کہ فرینکی کے معاملے میں ہوا۔
’لائف لائن‘
ماں اور بچے کے مابین تعلق جوڑنے والے نظام کا بنیادی حصہ ’’آنول‘‘ (placenta) نال ہے۔ یہ عارضی عضو ہے جسے بچے کے خلیے جنم دیتے ہیں۔یہ عضو ماں کے رحم سے چمٹ جاتا ہے۔ رحم تک آتی ایک شریان سے آنول کو ماں کا خون ملتا ہے جس میں آکسیجن، گلوکوز اور دیگر غذائیات (nutrients)موجود ہوتی ہیں۔آنول سے ایک نالی (cord umbilical ) بچے کے پیٹ سے جڑی ہوتی ہے۔ آنول اسی نالی کے ذریعے ماں کا خون بچے تک پہنچا کر اس کی پروش کرتی تھی۔آنول دس سینٹی میٹر لمبی اور ایک سینٹی میٹر چوڑی ہوتی ہے۔ دوران حمل آنول نال اورنالی، دونوں بچے کی لائف لائن بن جاتی ہیں۔ نال کے افعال میں درج ذیل شامل ہیں:
٭ بچے کو آکسیجن اور غذائی اجزا فراہم کرنا ٭ بچے سے نقصان دہ فضلہ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنا ٭ ہارمون پیدا کرنا جو بچے کی نشوونما میں مدد کرتے ہیں ٭ماں سے بچے کو قوت مدافعت منتقل کرنا ٭بچے کی حفاظت میں مدد دینا
یہ نال دوران حمل بچے کو زندہ اور صحت مند رکھنے میں مدد کرتی ہے ۔ماں اور بچے کے خون کے دھاروں کے درمیان آکسیجن اور غذائی اجزا کوباہم ملائے بغیر تبادلہ یقینی بناتی ہے۔ پیدائش تک بچے کے پھیپھڑوں، گردوں اور جگر کا کام کرتی ہے۔ زچگی کا وقت قریب آئے،تو نال بچے میںاینٹی باڈیز منتقل کرتی ہے تاکہ قوت مدافعت بڑھ جائے۔ یہ قوت مدافعت بچے کے ساتھ زندگی کے پہلے کئی مہینوں تک رہتی ہے۔ نال کئی اہم ہارمون جیسے لیکٹوجن، ایسٹروجن اور پروجیسٹرون پیدا کرتی ہے۔ حمل کے یہ ہارمون ماں اور بچے، دونوں کے لیے مفید ہیں۔ زچگی کے وقت آنول باہر خارج ہو جاتی ہے۔