تجارت

چینی سفیر کی پریس کانفرنس بہت غیر معمولی ہے، شہباز رانا

چینی سفیر کی پریس کانفرنس بہت غیر معمولی ہے، شہباز رانا

اسلام آباد: تجزیہ کار شہباز رانا نے کہا کہ چین کے وزیر اعظم کے دورہ پاکستان کے بعد چینی سفیر کی پریس کانفرنس بہت غیر معمولی ہے، عام طور پر جب ایسا کوئی دورہ ہوتا ہے تو اختتام پر میڈیا کو اہم باتیں بتا دی جاتی ہیں۔

مغربی سفیروں کے برعکس چینی عوامی طور پر بات نہیں کرتے، چینیوں کے بارے میں ایک اور بات یہ ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کو عوامی سطح پر شرمندہ بھی نہیں کرتے، اگر انھوں نے سخت سے سخت پیغام بھی دینا ہوتا ہے تو وہ نجی طور پر نپے تلے الفاظ کا چناؤ کر کے دیتے ہیں، چینی سفیر نے جس تشویش کا اظہار کیا وہ بالکل درست ہے، چین کے دو بہت بڑے ایشوزہیں، سب سے بڑا ایشو تو سیکیورٹی کا ہے، دوسرا سی پیک فریم ورک کے تحت جتنے بھی منصوبے ہیں، ان پر عملدرآمد ہے، انفراسٹرکچر اور اورنج لائن ٹرین کے دو بڑے منصوبوں کے علاوہ کئی منصوبوں میں ہم نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔

گوادر پورٹ کی ٹائم لائن پر عمل نہیں ہوا، دس سال گزر نے کے بعد بھی گوادر پورٹ بجلی سے محروم ہے، گودار کو جوڑنے والی سڑکیں اور ریل لائنز مکمل نہیں کی جاسکیں ہیں، گوادر پورٹ اتھارٹی نے فری زون کو زمین دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا، چین اس پر ناراض ہے اور اس نے پاکستان کی وعدہ خلافیوں پر تیرہویں مشترکہ کمیٹی میں تحفظات کا اظہار کیا ہے، اور گوادر پورٹ کو مکمل فعال بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ پاکستان میں چین کے سفیر نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کی ہے، عام طور پرچین کا سفارت خانہ یا سفیر اس طریقے سے پریس کانفرنس نہیں کرتے، پریس کانفرنس کا بنیادی فوکس وزیراعظم کا دورہ پاکستان تھا کہ اس میں کیا کچھ ڈسکس ہوا اور اس وقت چین کے لیے کیا کیا بڑے ایشوز ہیں۔

چینی سفیر نے زیادہ تر وہی باتیں کیں جو مشترکہ اعلامیے میں کہی گئی تھیں، چینی سفیرکا کہنا تھا کہ سی پیک جتنا اعلیٰ سطحی منصوبہ ہے اس کی اتنی ہی اعلیٰ سطحی سیکیورٹی بھی ہونی چاہیے، انھوں نے زور دیا کہ چینی شہریوں کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان کو ٹھوس اور حقیقی اقدامات کرنے ہوں گے۔

کامران یوسف نے مزید کہا کہ اس ہفتے روس کے شہر قازان میں برکس کے رکن ممالک کا سربراہ اجلاس ہوا، اس کی اہمیت یہ تھی کہ یہ اجلاس روس میں ہو رہا تھا، روس، چین کے صدور، بھارت کے وزیراعظم اور برکس کے دیگر رکن ممالک کے سربراہاں موجود تھے، روسی صدر پوٹن امریکا اور مغرب کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یوکرین کی لڑائی کے بعد شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ روس بین الاقوامی سطح پر تنہا ہوگیا ہے توایسی بات بالکل نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے