سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت نے اب تک موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017 کے تحت کلائمیٹ چینج اتھارٹی یا کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کرنا ہے۔
اعلیٰ سطح کے موسمیاتی مالیاتی فورم اور کوپ 29 کے حوالے سے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’بہت زیادہ پرجوش‘ قانون سازوں نے راتوں رات معاملات کو نمٹا دیا، لیکن انہوں نے اس حقیقت کے باوجود موسمیاتی تبدیلی کا فنڈ یا اتھارٹی قائم نہیں کی کہ پاکستان جیسے کمزور ممالک کے لیے موسمیاتی فنانسنگ ایک لائف لائن بن چکی ہے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’حکومت کو جاگنے اور دیگر مسائل کے بجائے ایسے مسائل پر زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے یاد دلایا کہ کس طرح موسمیاتی ایکٹ منصوبوں کی مناسب موافقت اور ماحولیاتی تبدیلی کی حساسیت سے متعلق عالمی فنڈنگ کے لیے بین الاقوامی اور مقامی اداروں کو جمع کرانے کے لیے ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ 2017 میں قانون منظور ہونے سے لے کر آج تک ملک میں ایسی کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کو دہراتے ہوئے کہا کہ کس طرح ایک مفاد عامہ کی درخواست سپریم کورٹ میں اس استدعا کے ساتھ آئی تھی کہ حکومت کو ہدایت کی جائے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی قائم کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن جب سپریم کورٹ نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے بجٹ میں فنڈز مختص کرنے کے بارے میں پوچھا تو حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ایک جج کی حیثیت سے یہ سمجھنے میں ناکام رہا ہوں کہ اگر آپ موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ملک میں موسمیاتی تبدیلی کے لیے بالکل کوئی رقم مختص نہیں کرتے ہیں تو بجٹ میں مختص کرنے کے لیے اس سے زیادہ اہم کیا ہوگا۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ چونکا دینے والی بات ہے، حالانکہ حکومت نے عدالت کو یقین دلایا تھا کہ مستقبل کے بجٹ میں رقم مختص کی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’میں جو آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ 2017 کا ایکٹ موسمیاتی اتھارٹی کے قیام کا مطالبہ کرتا ہے، لیکن حقیقت میں آج تک ایسی کوئی اتھارٹی موجود نہیں ہے، اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی کے فنڈز میں ایک پیسہ بھی نہیں آیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ایک مناسب ریگولیٹری فریم ورک ہونا چاہیے اور ’زیادہ پرجوش‘ قانون سازوں کو ایک مضبوط اور ٹارگٹڈ ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ آنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس طرح کے فریم ورک کی کمی منصوبے کے بروقت نفاذ کے لیے خطرہ ہے اور موسمیاتی سے متعلقہ منصوبوں کی حفاظت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو محدود کرتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی حقوق کا سب سے بڑا مسئلہ ہونا چاہیے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی موجودہ وقت کا سب سے بڑا خطرہ ہے جس سے پاکستان گزر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ججز موسمیاتی تبدیلی کو انسانی حقوق کے مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ شدید موسمی حالات خوراک، پانی اور صحت تک رسائی کے بنیادی حقوق کے مسائل پیدا کرتے ہیں، اس لیے انسانی وقار اور انسانی بقا کے تحفظ کے لیے کسی بھی قسم کی موسمیاتی مالی امداد ضروری ہو گئی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مشاہدہ کیا کہ ’پاکستان کے لیے موسمیاتی مالیات کوئی انتخاب نہیں بلکہ بقا کی حکمت عملی ہے، جب ہمارے گھر میں آگ لگ جاتی ہے، تو میرے خیال میں موسمیاتی فنانس وہ پانی ہے جس کے ذریعے ہمیں اس آگ کو بجھانے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے تناظر میں عالمی برادری سے 30 ارب ڈالر آنے تھے، لہٰذا ہمیں اس معاملے کو انسانی حقوق کے تناظر میں اٹھانے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر بین الاقوامی سطح پر اس طرح کے فنڈز حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رہے گا۔’