اسلام آباد:آئینی بنچوں کے لیے سات ججوں کی نامزدگی کے بعد اب سب کی نظریں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بننے والی تین ججوں کی کمیٹی پر ہیں جو آئندہ دو ماہ میں آئینی معاملات کو سماعت کے لیے مقرر کرے گی۔ کمیٹی کے دیگر دو ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل ہیں۔
جسٹس امین الدین خان کو عدالت عظمیٰ میںسب سے اہم جج سمجھا جا رہا ہے کیونکہ وہ کمیٹی کے سربراہ ہونے کے ناطے آئینی مقدمات کو شارٹ لسٹ کریں گے جنکے نتائج ملکی سیاست پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
جسٹس امین الدین خان فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف کیس میں لارجر بینچ کی سربراہی کر رہے تھے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل اور محمد علی مظہر بھی اس لارجر بنچ کا حصہ تھے۔ معاملہ ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
یہ دلچسپ ہوگا کہ آیا کمیٹی 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں مقرر کرنے پر غور کرے گی جبکہ آئینی بنچ بھی اس آئینی ترمیم کی تخلیق ہیں۔ سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا آئینی بنچ ان درخواستوں کی سماعت کر سکتا ہے؟ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اختر مینگل، مصطفی نواز کھوکھر، فہمیدہ مرزا اور محسن داوڑ نے 21ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر وکلا 4 نومبر کو آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں کو مقرر نہ کرنے پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی پر تنقید کر رہے ہیں۔ اب سب کی نظریں سات ججوں پر ہیں کہ وہ عدلیہ کا امیج کیسے بحال کریں گے۔
ایک اور اہم معاملہ مخصوص نشستوں کے معاملے میں 12 جولائی کے حکم کیخلاف اپیلوں کا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ابھی تک اس حکم پر عمل نہیں کیا۔ ایک لا افسر کاکا خیال ہے کہ درخواستوں کی سماعت کیلئے 13 ججوں کی ضرورت ہوگی۔
اس بات کا امکان ہے کہ سپریم کورٹ مستقبل قریب میں فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ سات نامزد ججوں میں سے تین جج 12 جولائی کے اکثریتی حکم نامے پر دستخط کرنے والے ہیں۔