پاک افغان سرحد کے قریب شمالی وزیرستان کے علاقے اسپنوم میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کے دوران 6 مشتبہ عسکریت پسند ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ تقریبا 25 عسکریت پسندوں نے جمعہ کی رات تحصیل میر علی کے علاقے اسپنوم میں دراندازی کی کوشش کی۔
سیکیورٹی فورسز نے ان کی نقل و حرکت کو دیکھتے ہوئے انہیں روکنے کی کوشش کی اس دوران دونوں جانب سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں 6عسکریت پسند ہلاک اور تین زخمی ہوگئے جب کہ باقی عسکریت پسند واپس افغانستان چلے گئے۔
ذرائع نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران کواڈ کاپٹر کا بھی استعمال کیا تاہم پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتے کی رات تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
تاہم 4 نومبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے 3 اور 4 نومبر کی درمیانی شب جنوبی وزیرستان میں پاک افغان سرحد پر خمرنگ کے علاقے میں دراندازی کی کوشش کرنے والے کچھ دہشت گردوں کا سراغ لگایا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی دراندازی کی کوشش کو ناکام بنایا اور فائرنگ کے تبادلے کے دوران 5 کو ہلاک کردیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان مسلسل عبوری افغان حکومت سے کہتا رہا ہے کہ وہ اپنی جانب سے سرحد پر موثر انتظامات کرے، عبوری افغان حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کی اجازت نہیں دے گا۔
دریں اثنا، جنوبی وزیرستان اپر کی ضلعی انتظامیہ نے ہفتہ کے روز تحصیل شکتوئی کے علاقے شارکائی میں مبینہ طور پر مارٹر گولہ گرنے سے جاں بحق ہونے والے بچوں کے اہل خانہ سے کامیاب مذاکرات کیے۔
واقعے کے بعد اہل خانہ اور مقامی محسود قبائلیوں نے دھرنا دیا جس کے بعد جنوبی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر سلیم جان نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور انہوں نے دھرنا ختم کر دیا۔
صوبائی اسمبلی کے رکن آصف خان محسود نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ سیکیورٹی فورسز نے مقامی آبادی پر فائرنگ کی۔