صحت

ایک پرانی عادت اپنائیں اور ڈیمنشیا کو دور بھگائیں

ایک پرانی عادت اپنائیں اور ڈیمنشیا کو دور بھگائیں

آسٹریلیا: ماہرین نے کہا ہے کہ ہم ماضی کی مشہور عادت کو فراموش کرچکے ہیں، اسے دوبارہ شروع کرکے بالخصوص بزرگ افراد بہت حد تک ڈیمنشیا کو دور بھگا سکتے ہیں کیونکہ اس سے اکتسابی صلاحیتوں کو تقویت ملتی ہے۔‌کمپیوٹر اور موبائل فون کے عہد میں ہم اپنے ہاتھوں سے لکھنا یکسر فراموش کرچکے ہیں لیکن یہی عادت ہمیں ہول ناک امراض سے بچاسکتی ہے۔‌ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ 70 سال تک کے بزرگ مرد و خواتین اگر خط لکھنے، جرنل نویسی اور ڈائری لکھنے کو معمول بنالیں تو اس سے ڈیمنشیا کے حملے کا خطرہ 11 فیصد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس سے قبل ماہرین یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ لفظی معمے حل کرنے اور کراس ورڈ پر وقت گزارنے سے بھی دماغ کو فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ اس طرح دماغ پر زور پڑتا ہے اور یوں نئے دماغی سرکٹ بنتے ہیں۔‌آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی کے ماہرین نے تازہ تحقیق میں کہا ہے کہ شطرنج کھیلنے، تاش کے کھیل اور معمے حل کرنے سے ڈیمنشیا کا خطرہ 9 فیصد تک دور ہوسکتا ہے جبکہ خطوط نویسی زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے جب کہ مصوری، اخبار پڑھنے اور ٹی وی وغیرہ دیکھنے سے یہ خطرہ صرف 7 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔‌ڈیمنشیا اور الزائیمر کا مرض اب مغرب میں جان لیوا ہوچکا ہے کیونکہ صرف برطانیہ میں ہی ہر دس میں سے دو مرد اور ہر 8 میں سے ایک خاتون اس کا لقمہ بن رہی ہے۔ ماہرین کا اصرار ہے کہ زندگی گزارنے کے معمولات تبدیل کرکے اس کیفیت کو ٹالا ضرور جاسکتا ہے۔‌اس مطالعے میں آسٹریلیا سے 10 ہزار افراد کو بھرتی کرکے مسلسل دس برس تک ان کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے 300 افراد ڈیمنشیا کے شکار ہوئے جن میں سے 12 افراد کی عمر 85 سال یا اس سے زائد تھی لیکن جن افراد نے ڈائری لکھنے اور خطوط نویسی کی عادت اپنائی ان پر مرض کا حملہ کم دیکھنے میں آیا اور ان کے دماغوں میں اکتسابی صلاحیت بھی زیادہ دیکھی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے زور دیا ہے کہ وہ تحریر کی عادت اپنائیں، اس میں نہ صرف ہاتھوں کی حرکات بلکہ موٹر نیورون سرگرمی اور دماغی سرگرمی جیسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے