تازہ ترین

درخواستیں مسترد، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے مطابق قرار

درخواستیں مسترد، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ قانون کے مطابق قرار

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے خلاف تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔‌ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتفاق رائے ہوگیا تو ابھی فیصلہ سنا دیں گے اور اتفاق رائے نہ ہوا تو محفوظ فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا تاہم بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا جو ساڑھے پانچ بجے سنائے جانے کا کہا گیا تھا تاہم ابھی تک نہیں سنایا گیا۔‌بعدازاں ساڑھے چھ بجے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سنادیا، چیف جسٹس نے انگریزی میں فیصلہ سنایا جس میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اسے قانونی قرار دے دیا گیا۔ فیصلہ دس پانچ کے تناسب سے دیا گیا جس میں دس ججز نے درخواستوں کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ پانچ ججز نے اختلافی نوٹ دیا۔‌قبل ازیں سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے روسٹم پر آکر اپنے دلائل میں کہا کہ تحریری جواب کی بنیاد پر دلائل دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں آپ سب باتیں دہرائیں گے نہیں ہائی لائٹ کریں گے۔‌اٹارنی جنرل نے کہا کہ تین سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، آئین میں کئی جگہوں پر سبجیکٹ ٹو لا کی اصطلاح آئی اور پرائیویسی کا حق بھی سبجیکٹ ٹو لا رکھا گیا، کس نوعیت کا قانون ہوگا یہ نہیں بتایا گیا۔‌انہوں نے دلائل میں کہا کہ سب سے پہلے ماسٹر آف روسٹر کے نکتہ پر دلائل دوں گا، 1956 کے رولز پر بھی عدالت میں دلائل دوں گا، اختیارات کی تقسیم اور پارلیمان کے ماسٹر آف روسٹر کے اختیار لینے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کی تشکیل اور اپیل کے حق سے محروم کرنے کے حوالے سے بھی دلائل دوں گا اور جو کہا جا چکا اس کو نہیں دہراؤں گا۔‌اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 14,20,22,28 میں دیے گئے حقوق قانون کے مشروط ہیں، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے اور آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی اور اس میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔‌چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟‌اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کا حق قانون سازی ختم نہیں کرتا، پارلیمنٹ نے عدلیہ کی آزادی دی ہے مگر اپنا حق قانون سازی بھی ختم نہیں کیا۔‌جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 1973 سے پہلے رولز بنانے کا اختیار گورنر جنرل یا صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط تھا، آرٹیکل 8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہوسکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔‌اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون بنانے کا اختیار دیتا ہے، صرف عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں ہوسکتی۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال ہی عدلیہ کی آزادی کا ہے۔‌اٹارنی جنرل نے بتایاکہ قانون کا ایک حصہ ایکٹ آف پارلیمنٹ دوسرا عدالتی فیصلے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے، اس نکتے پر تفصیلی دلائل پیش کروں گا، آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگتا۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین میں لفظ لاء 200 سے زیادہ بار آیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا، یہ ’’ون سائز فٹ آل‘‘ والا معاملہ نہیں ہے، جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔‌جسٹس میاں محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا کیوں ہے؟ یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا؟‌جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لاء کا لفظ نہیں، یہ سبجیکٹ ٹولاء لکھا ہے۔‌جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عمومی حالات میں صوبے وفاق سے متعلقہ امور پر قانون سازی نہیں کر سکتے، معاملہ اگر صوبے کے عوام کے حقوق اور ہائی کورٹ کا ہو تو کیا ہوگا؟‌جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 میں واضح ہے کہ ہائی کورٹ میں ججز کی تعداد قانون میں مقرر ہوگی، آرٹیکل 191 میں کہیں نہیں لکھا کہ قانون بنے گا اور اسکے تحت رولز بنیں گے۔‌چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے، پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی، آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں۔‌چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہوں گے؟ عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رولز قانون کا درجہ رکھتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اگر ایگزیکٹو اور پارلیمان کے رول قانون ہیں تو سپریم کورٹ کے کیوں نہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ رولز قانون ہوتے ہیں لیکن یہ آرٹیکل 191 میں استعمال شدہ لفظ قانون نہیں کہلائیں گے۔‌جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اس حساب سے تو سپریم کورٹ 1980 میں کہہ سکتی تھی کہ کوئی قانون نہیں ہے تو ہم رولز نہیں بنا سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے