دنیا

وہ کروڑ پتی برطانوی تاجر جو ’ناکردہ‘ جرم میں 38 برس امریکی جیل میں قید رہے

وہ کروڑ پتی برطانوی تاجر جو ’ناکردہ‘ جرم میں 38 برس امریکی جیل میں قید رہے

’میں بے قصور ہوں۔‘ کرشنا مہاراج 38 برس تک عدالت، میڈیا اور اپنے وکلا کو بار بار یہ یقین دلاتے رہے۔ وہ سنہ 1986 میں دو افراد کے قتل میں مجرم قرار دیے گئے اور اس سارے عرصے میں وہ امریکی ریاست فلوریڈا کی ایک جیل میں قید رہے۔ اگرچہ ایک جج نے بھی کرشنا کے حق میں رائے دی مگر اس اختلافی فیصلے سے ان کی رہائی ممکن نہ ہو سکی۔‌5 اگست کو 85 سال کی عمر میں کرشنا مہاراج جیل میں ہی فوت ہو گئے۔ کرشنا نے سنہ 2019 میں بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’جب انھوں نے مجھے موت کی سزا سنائی تو میں کمرہ عدالت کے فرش پر ہی گر گیا۔ میں یقین نہیں کر سکتا تھا کہ مجھے ایک ایسے جرم کی سزا سنائی گئی ہے جس کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا تھا، اور ظاہر ہے کہ میں نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔‘‌کرشنا کے وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ موت کی سزا کو عمر قید میں بدلنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور آخر کار عدالتی فیصلے میں یہ کہا گیا کہ کرشنا کا اس دوہرے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا جس کی انھیں سزا سنائی گئی۔‌اس کے باوجود بھی کرشنا کی رہائی ممکن نہ ہو سکی۔ سٹافورڈ نے برطانوی اخبار دی گارڈین کو بتایا کہ عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ کرشنا کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں، مگر یہ ان کی رہائی کے لیے کافی ثابت نہ ہو سکے۔‘‌اب کرشنا کی اہلیہ ماریتا اور وکیل ان کی لاش کو ان کے آبائی ملک بھیجنے کے انتظامات کر رہے ہیں۔‌16 اکتوبر 1986 کو جمیکا نژاد ڈیرک مو یونگ اور ان کے بیٹے ڈوآن میامی کے ڈوپونٹ پلازہ ہوٹل کے ایک کمرے میں مردہ پائے گئے۔ دونوں کی لاشوں پر گولیوں کے نشانات تھے۔ اس دوہرے قتل کی تفتیش کا آغاز ہوا اور پھر اس کے نتیجے میں عدالت نے ملزم کرشنا مہاراج پر صرف واحد گواہ کی دی گئی گواہی کی بنیاد پر فرد جرم عائد کر دی۔‌کرشنا مہاراج ہندوستانی نژاد برطانوی تاجر تھے جو کیلے کی درآمد کے کاروبار سے کروڑ پتی بن چکے تھے، کا مو ینگ کے ساتھ کاروباری تنازع تھا۔‌پولیس کی معلومات کے مطابق کرشنا مہاراج نے ہوٹل کے ایک کمرے میں مو یونگ سے ملاقات کی تھی۔‌عدالت میں گواہ نے بتایا کہ دراصل ہوٹل کے کمرے کے اندر کرشنا نے ہی باپ بیٹے پر گولیاں برسائیں۔‌یہ دوہرا قتل لین دین کے تنازع پر ہوا۔ مبینہ طور پر مو یونگ سے کرشنا کی ٹرینیداد جزیرے پر کرشنا کے کچھ رشتہ داروں سے دھوکہ دہی سے پیسے لینے کے معاملے پر تلخی ہوئی۔ ‌کرشنا کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر دوہرے قتل کا الزام لگایا گیا اور صرف ایک سال سے کم عرصے میں اسے دوہرے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔ کرشنا نے 2019 کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’میں وہاں نہیں تھا۔ کم از کم چھ لوگوں نے بتایا کہ اس دن میں ہوٹل سے 30 کلومیٹر سے زیادہ دور کسی اور مقام پر موجود تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ انھوں نے مجھے مجرم قرار دیا ہے۔‘ انھوں نے یہ جملہ ایک بار پھر دہرایا کہ ’میں بے قصور ہوں۔‘‌چھ سال تک اپنی بے گناہی ثابت کرنے اور سزائے موت سے بچنے کی کوششوں کے باوجود کرشنا کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ سنہ 1993 تک سٹافورڈ، جو انسانی حقوق کے وکیل کے طور پر کام کر رہے تھے انھوں نے یہ مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے