دلچسپ اور عجیب

جناب چیف جسٹس گلزاراحمد وفاقی درالحکومت میں بھی نوٹس لیں!

فیض احمد فیض نے کہا تھا
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سجر
وہ انتظار تھا جس کا ،یہ وہ سحر تو نہیں
نئے سال میں ہمارے ملک میں ایک لفظ ”چائنا کٹنگ”روشناس ہوا اور یہ نام روشنیوں کے شہر اور ملکی معیشت کے ”حب” کراچی سے شروع ہوا تھا اگر اسی وقت اس مافیا کے بارے میں غورو فکر کر لی جاتی تو یہ لفظ آگے تک نہ جاتا اسلام آباد کی تعمیر وترقی کا ضامن سی ڈی اے ہے مگر اسلام آباد میں نالوں کی بھرائی کرکے پلاٹ پیدا کر لئے گئے اور پھر متاثرین کو میرٹ پر اعلانیہ دینے کی بجائے آپس میںبندر بانٹ کر لی گئی۔ اور اس طرح کروڑوں کا فائدہ اٹھا لیا گیا۔ ویسے تو وہ تمام پلاٹ جو کافی عرصہ سے استعمال نہ ہورہے ہوں وہ مافیا کے قبضے میں چلے جاتے ہیں مگر اب چائنا کٹنگ کے ذریعے کونوں کھدروںسے قیمتی پلاٹوں پر قبضہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے کراچی میں یہ کام کالونیوں اور ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ہسپتالوں اور سکولوں کی جگہ میں سے پلاٹ نکال کرکیا گیا۔ جس کی وجہ سے سوسائٹیوں ا ور کالونیوں کا ڈسپلن بھی خراب ہوا اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہوا جبکہ پلاٹوں کو چائنا کٹنگ کاسلسلہ اسلام آبادمیں بھی جاری ہے۔
عزت مآب چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں چائنا کٹنگ کے حوالے سے احسن اقدامات کیے ہیں۔نیب کے چیئر مین جناب جاوید اقبال نے بھی ایکشن لیا ہے اسلام آباد کے لوگ بھی پُر اُمید ہیں، کہ یہاں چائنا کٹنگ اور نان کنفرمنگ استعمال کے حامل کاروبار کا ایکشن لیں گے کیونکہ ان مسائل کی موجودگی میں لاء اینڈ آرڈر اور دہشتگردی کے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔ اور پھر کمرشل استعمال میں گھریلو صارفین کے برابر بجلی اور گیس کے بل وصول کئے جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ چائنا کٹنگ اور نان کنفرمنگ استعمال پر عدالتیں فیصلے دیتی ہیںمگر سول ادارے عملدرآمد نہیں کرواتے۔
سی ڈی اے کا ادارہ بھی شہرکی تعمیر وترقی اور خوبصورتی میں اضافہ کیلئے بنایا گیا تھا مگر بدقسمتی سے اسلام آباد کی خوبصورتی کی تباہی کا زمہ داری بھی یہی ادارہ ہے ، اسلام آباد کا شمار دنیا کے تین خوبصورت ترین دارلخلافوں میں کیا جاتاہے مگر اب شہر اقتدار کی خو بصورتی ناقص منصوبہ بندی اور سی ڈی اے کی غفلت سے مانند پڑ گئی ہے ، اسلام آباد کی خوبصورتی کے حامل درختوں کی کٹائی ہو یا تجاوزات ، سی ڈی اے میں موجود کچھ کرپٹ عناصر ہر دور میں ایسے عناصر کو تحفظ دیتے رہے ہیں، پاکستان تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت بنی تو سب سے پہلے اسلام آباد سے تجاوزات کے خاتمے کیلئے اقدامات شروع کیے گئے اسی سلسلے میں اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں تجاوزات کے خلاف آپریشن ہوئے اور سیکٹر جی 13( کشمیر ہائی وے ) پر شادی ہالز اور دیگر تجاوزات کو ہٹایا گیا، دوران آپریشن سی ڈی اے کے کچھ افسران کے تجاوزات مافیا کی سرپرستی کے شواہد سامنے آئے ، اسلا م آباد کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ جس کاذکر بار بار میں نے کیا ہے وہ ہے رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں ، اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کے باعث نہ صرف شہریوں کو مشکلا ت کا سامنا رہا ہے بلکہ قومی خزانے کو بجلی اور گیس کے بلوں کی مد میں روزانہ لاکھوں روپے کا نقصان بھی ہوتا چلا آرہاہے ، کیونکہ کمرشل عمارتوں میں بھی گھریلوصارفین کے بل آتے ہیں،سی ڈی اے نے کسی حد تک نان کنفرمنگ استعمال کے خلاف اقدامات کئے اور گزشتہ دو سالوں میں تقریبا ڈیڑھ ہزار سے زائد نان کنفرمنگ استعمال کے حامل کاروبار بند کیے گئے متعدد کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے ، اب تک موصول اعداد وشمار کے مطابق تقریبا تیرہ سو کے قریب وفاقی دارلحکومت میں اب بھی نان کنفرمنگ استعمال کے حامل کاروبار موجود ہیںان میں زیادہ تعداد نجی سکولوں اور گیسٹ ہائوسز اور بیوٹی پارلزکی ہے ، نجی سکولوں اور گیسٹ ہائوسز نے عدالت سے سٹے آرڈر لے رکھا ہے اورعدالت نے سی ڈی اے کو ہدایات جاری کر رکھی ہیں سکولوں کے لئے مختلف سیکٹرز میں نئے پلاٹ دئیے جائیں تاہم ابھی تک معاملہ عدالت میں ہے ،سپریم کورٹ نے بھی سی ڈی اے سے نان کنفرمنگ استعمال پر رپورٹ طلب کررکھی ہیں تاہم سی ڈی اے نے ابھی تک رپورٹ جمع نہیں کرائی ، تازہ ترین صورتحال میںاسلام آباد میں چائناکٹنگ مختلف طریقوں سے جاری ہے ، مختلف ڈیویلپ سیکٹرز میں نالوں کے اطراف اور مختلف creat (نئے پیدا کردہ) کیے گئے پلاٹس کو سی ڈی اے افسران ملی بھگت سے مخصوص لوگوں کو الاٹ کررہے ہیں ، سی ڈی اے بائی لاز کے مطابق ایسے پلاٹس قرعہ اندازی کے ذریعے متاثرین کو دئیے جاتے ہیں مگر سی ڈی اے میں اب بھی مختلف Developedسیکٹرز میں نئے پیدا کیے گئے پلاٹس ملی بھگت سے الاٹ کیے جارہے ہیں جو سراسر غیر قانونی ہے ، جہاں تک نئے پلاٹ creat کرنے کا تعلق ہے وہ کسی حد تک سی ڈی اے بائی لاز کے مطابق ہے مگر جس انداز میں الاٹمنٹ ہورہی ہے وہ غیر قانونی ہے ۔سی ڈی اے میں ایسے عناصر آج بھی موجود ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور مختلف تحقیقاتی اداروں کے ریڈار پر بھی موجود ہیں مگر تمام دعوئوں کے باوجود وفاقی ترقیاتی ادارے میں اصلاحات نہیں لائی جاسکیں ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے