مارچ میں مارچ تو تھا ہی فروری میں بھی مارچ کی بات ہو گئی۔ پیپلزپارٹی کےچیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے حکومت کے خلاف 27 فروری سے احتجاجی مارچ کا معنی خیز اعلان کر دیا ہے۔ کراچی کا انتخاب شاید اس لیے کیا کیونکہ پورے ملک میں صرف سندھ ہی ہے جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اوربڑی تعداد میں جیالوں کو اسی صوبے سے ٹرینوں اوربسوں ہی نہیں پیدل بھی کسی منزل کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔
مزار قائد کو نکتہ آغاز بنا کر ایک ایسا مقام بھی چنا گیا ہے جو شہر کا دل ہے اوراتوار کو وہاں عوام کا رش رہتا ہے۔ اگر جیالے بڑی تعداد میں جمع ہوئے تو مارچ ہرشخص کی توجہ اپنی جانب کھینچنے میں کسی حد تک کامیا ب ہوجائےگا۔
پیپلزپارٹی نے حکومت کےخلاف اس مارچ کی تاریخ 27 دسمبر ہی کیوں رکھی ؟ یہ تو شاید بلاول بھٹو زرداری اور پیپلزپارٹی کے رہ نما ہی بہتر بتا سکتے ہیں، مگر اس تاریخ سے یہ اشارہ ضرور دیدیا گیا ہے کہ پیپلزپارٹی کا لانگ مارچ بھی مختلف شہروں سے ہوتا ہوا مارچ ہی میں اسلام آباد پہنچے گا۔ فروری28 دن کا مہینہ ہوتا ہے اور چونکہ لانگ مارچ کارکنوں کو طیاروں میں بھر کر نہیں کیے جاتے اس لیے جیالوں کا قافلہ اسلام آباد ممکنہ طور پر انہی تاریخوں میں پہنچےگا جب پی ڈی ایم 23 مارچ کو دارلحکومت میں دمادم مست قلندر کررہی ہوگی۔
سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کالانگ مارچ اورپی ڈی ایم کا لانگ مارچ کسی موقع پر ایک ہوں گے یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ الگ الگ طاقت دکھانے کا مقصد کیا ہے؟
اس میں توکوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کسی بھی قیمت پر اپنا ووٹ بینک نہیں کھونا چاہتیں لیکن جب سے ان مظاہروں اور پی ڈی ایم کے جلسوں کا آغاز ہوا ہے ، یہ بھی واضح ہے کہ کوئی ایک جماعت لوگوں کا جم غفیر جمع کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ کسی شہر میں ن لیگ کے کارکن زیادہ رہے تو کہیں پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے۔ تو کیا پی ڈی ایم سے جدا پیپلزپارٹی اب تنہا پاور شو کرنے میں کامیاب ہوسکے گی؟
ضیا دور کے بعد پیپلزپارٹی اورن لیگ کے دو دو ادوار ہوں، سابق صدر مشرف کا دور یا پھر پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی تیسری باری، اس میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی کے لیے منہگائی ہر دور میں اس قدر تیزی سے بڑھی ہے کہ لوگ اُس دور کی حکومتوں سے نالاں تھےاور نئی حکومت سے توقعات لگاتے رہے، عمران خان دور میں منہگائی نے پچھلے تمام رکارڈ توڑ دیے اورعوام کو ن لیگ اور پیپلزپارٹی ہی کے ادوار بہتر محسوس ہورہے ہیں مگر وہ اب بھی سڑکوں پر آنے کے لیے اسطرح تیار نہیں جیسا پہلے کبھی ہوا کرتاتھا۔
حکومت کے خلاف مؤثرمارچ اسی صورت میں ممکن ہے جب پی ڈی ایم پھر سےاسی طرح فعال ہو جیسا وہ اپنے قیام کے وقت تھی۔ ووٹرز بھی جانتے ہیں کہ اب کوئی ایک جماعت ملکی سطح پر پی ٹی آئی حکومت کو امتحان میں نہیں ڈال سکتی۔ الگ الگ مارچ اس حد تک توٹھیک ہیں کہ ہر جماعت اپنے کارکنوں کی تعداد اور ان کا مومینٹم ثابت کردے گی لیکن اپوزیشن کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ اگر اس بار بھی ناکام لوٹے تو عوام کو اگلی بار متحرک کرنا اس سے کہیں بڑا چیلنج بن جائےگا۔
چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کے چند ہی ماہ بعد بے نظیربھٹو نے مجھے اورجیو نیوز کو اپنے آخری انٹرویو میں میاں نوازشریف پر کڑی تنقید کی تھی مگر وہ ایک ایسا دور تھا کہ بے نظیربھٹو کو وطن آنا تھا،جیالوں کو متحرک کرنا تھا،اب اگر نوازشریف واپس آنا چاہئیں اور استقبال کے لیے پیپلزپارٹی اور اے این پی شامل ہو تو یہ نہ صرف ن لیگ بلکہ پوری اپوزیشن کو مضبوط کرےگا۔
ویسے بھی ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو ماضی بھلانا ہوگا۔ حکومت کیخلاف مؤثر لانگ مارچ کرنا ہے تو اپوزیشن کومتحد کرنا ہوگا، پی ڈی ایم کو حقیقی معنوں میں بحال کرنے کے لیے کوئی بہانہ گھڑنا ہوگا، ورنہ فیصلہ کُن لانگ مارچ اسلام آباد کی سیرسے زیادہ کچھ زیادہ ثابت ہونا مشکل ہوجائےگا۔