کالم

برطانیہ میں بھارتی مسلمانوں کےساتھ اظہاریکجہتی مہم

;200;زاد کشمیر کے الیکشن اور مسائل
جمعہ 25 فروری سے برطانیہ میں یوم حجاب کی مہم کا ;200;غاز کیا جارہا ہے اور حجاب کے معاملے پر بھارت کی مسلمان خواتین سے اظہار یکجہتی کے طور پر پرامن احتجاجی مہم کا ;200;غاز کیا جا رہا ہے بعض مساجد میں علمائے کرام تواتر سے دین اسلام میں حجاب کی اہمیت اور فضیلت کو نہ صرف اجاگر کریں گے بلکہ بھارت میں مسلمان خواتین کے حجاب پر پابندی کو زیر بحث بنائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس ایشو کو اجاگر کیا جائے جمعہ کی نماز کے بعد بعض شہروں میں مساجد کے باہر مسلمان کمیونٹی بینرز اور کتبے اٹھا کر بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے گئی وزیراعظم نریندرمودی کی حکومت میں انتہا پسند ;200;ر ایس ایس اور ہندوتوا کے پیروکاروں کی جانب سے مسلمان خواتین کے سروں سے حجاب زبردستی اتارنے اور حجاب پر پابندی عائد کرنے کی بھرپور مذمت کی جائے گی اسی تناظر میں برمنگھم میں کل جماعتی بین الاقوامی کشمیر رابطہ کمیٹی مسلم ایکشن فورم اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں نے ایک اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کے ایک کالج میں جب سے مسکان خان نے انتہا پسند ہندوءوں کے جھتے کے سامنے نعرہ تکبیر بلند کیا ہے تب سے مسلمان خواتین کے سروں سے حجاب اتارنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور بھارت کی کئی ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کی جارہی ہے بعض ریاستوں میں تو ہندو مسلم فسادات کے خطرے کے پیش نظر تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے ہیں کشمیر رابطہ کمیٹی کے سرپرست اعلیٰ مولانا حافظ فضل احمد قادری علامہ سید ظفر اللہ شاہ تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی خواجہ محمد سلیمان مولانا طارق مسعود مفتی عبدالمجید ندیم قاری اخلاق قادری چوہدری اکرام الحق نے کہا ہے کہ احتجاج کا مقصد یو این او اور ہیومین راءٹس کی تنظیموں سے یہ مطالبہ کرنا ہے کہ بھارت میں انتہا پسندی اور ریاستی تشدد کو بند کروائیں اجلاس میں یہ بھی زور دیا گیا کہ ہے کہ مسلمان اپنے اپنے ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ بھی اس مسئلے کو اٹھائیں یاد رہے کہ برطانیہ میں پاکستانی مسلمان کوئی دو ملین کے قریب ہیں کشمیر کے حوالے سے جب کبھی مظاہرہ ہوتا ہے تو اگر مہم پہلے سے بھرپور چلائی جائے تو مظاہرے بہت کامیاب ہوتے ہیں جیسا کہ5اگست 2019کے بعد بھارتی ہائی کمیشن لندن کے باہر ہزاروں کی تعداد میں برٹش کشمیریوں اور پاکستانیوں نے مظاہروں میں شرکت کی تھی اسی طرح ہر شہر میں جمعہ کے روز مساجد نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں اگر مسلمان تھوڑی دیر کھڑے ہو کر بھارتی مسلمانوں کےلئے صدائے احتجاج بلند کریں تو یہ ایک بھرپور تحریک بن سکتی ہے یہ تو خوش ;200;ئند ہے کہ پاکستانی مسلمان جس بھی ملک میں ;200;باد ہوں وہ جس بھی ملک میں مسلمانوں پر زیادتی ہو بھرپور ;200;واز بلند کرتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں کے مسلمان اسی طرح متحرک نظر نہیں ;200;تے حجاب کے موجودہ ایشوز پر خود بھارتی مسلمان برطانیہ کے شہروں جیسے بلیک برن لیسٹر برمنگھم لندن میں اکثریت میں ;200;باد ہیں لیکن مشاہدے میں ;200;یا ہے کہ پاکستانی اور دیگر ممالک کے مسلمان جب روہنگیا کے مسلمانوں کے حق میں لندن میں احتجاج میں کررہے تھے تو بھارتی اور عربوں بنگلہ دیشی مسلمانوں کی شمولیت بہت کم تھی اسی طرح یہاں فلسطین کے حق میں ہونےوالے مظاہروں اور احتجاج میں پاکستانیوں کی شمولیت تو بھرپور ہوتی ہے لیکن عربوں نے کبھی کشمیریوں کےلئے ہونے والے مظاہروں میں شرکت نہیں کی اس بارے میں مسلمان کمیونٹی رہنماءوں اور علمائے اکرام کے درمیان باہم رابطے بڑھانے کی ضرورت ہے مسئلہ یہ بھی ہے کہ دیگر مذاہب میں تنظیم اور باہم اتحاد ہے لیکن مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے اور یہاں اپنے اپنے ملکوں اور مسالک کی علیحدہ علیحدہ مساجد ہیں دوسرے مذاہب اور کمیونٹیز کےلئے تو ہم سب ایک مسلمان کمیونٹی نظر ;200;تے ہیں دراصل ایسا ہے نہیں بھارت میں مسلمانوں پر مظالم رکوانے کےلئے ضروری ہے کہ مسلمان نوجوان بچے بچیوں اور یوتھ سے اپنے اپنے ممبران ;200;ف پارلیمنٹس کو خط لکھوائے جائیں اور اس مسئلے کو باقاعدہ تحریک بنایا جائے برطانیہ میں ہماری مسلمان بہنیں بیٹیاں بڑی تعداد میں حجاب پہن کر یہاں کے ہر شعبہ زندگی میں اپنے روزمرہ کے فراءض منصبی سرانجام دے رہی ہیں یہ ان کا بنیادی حق ہے جبکہ یہاں پر اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ باہم اتحاد اور یگانگت میں رہ رہے ہیں اور جو کچھ نریندرمودی کی فاشسٹ حکومت کررہی ہے وہ ہمارے یہاں باہم ایک دوسرے کے تعلقات میں خرابیاں پیدا کررہی ہے اور نفرتوں کے بیج بو رہی ہے جبکہ ;200;ج اگر ہم بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو مغرب میں ایسا کچھ ہوا تو ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے میری تجویز ہے کہ برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں کو تمام مسلم ممالک کے سفارت خانوں کو متحرک کرنا چاہئے اور باقاعدہ وفود کی صورت میں ان سفارت خانوں کا وزٹ کرنا چاہئے تاکہ بھارت کی مودی حکومت کے عزائم کو لگام دی جائے جبکہ بھارت کی دیگر اقلیتوں اور سکھوں عیسائیوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے تاکہ نتاءج مثبت بر;200;مد ہو سکیں ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے