کالم

پینڈو ۔ ۔ ۔ !

پنجابی پاکستان کی ایک بہت بڑی زبان ہے ۔ یہ پاکستان کے پنجاب اور بھارت کے پنجاب میں بولی جاتی ہے ۔ پنجابی میٹھی زبان ہے بلکہ ہرزبان میٹھی ہوتی ہے لیکن یہ سب آپ کے اندورنی کیفیت پر منحصر ہوتا ہے ۔ پینڈو پنجابی زبان کا لفظ ہے ۔ پنڈ کا مطلب دیہات اور پینڈو کی معنی دیہاتی کے ہیں ۔ دیہاتوں میں فطرت کے نظاروں کا موقع ملتا ہے ۔ دیہاتوں میں الفت ، راحت اور سکون ہوتا ہے ۔ لوگ ایک فیملی کی طرح رہتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں ۔ دیہاتوں میں رشتوں کا احساس ہے، ایک دوسرے کا احترام ہے ۔ دیہاتوں میں لوگ اخلاص اور محبت سے ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔ دیہاتوں میں معمولی فائدے کےلئے جھوٹ نہیں بولتے ہیں ۔ خاکسار آج کل زیادہ تر وطن عزیز پاکستان کے دل لاہور میں رہتا ہے ۔ لاہور بہت زیادہ پھیل گیا ہے ۔ جہاں کھبی لہلہاتے اور سر سبز کھیت تھے ، اب وہاں پر عمارتیں ہی عمارتیں ہیں ۔ دیہاتوں کے زیادہ لوگ اچھی زندگی اور بہتر مستقبل کےلئے لاہور کا رخ کررہے ہیں ۔ لاہور میں 90فیصد لوگ دیہاتوں سے آئے ہیں ۔ لاہور میں تعلیم ، صحت، روزگار سمیت سب کچھ موجود ہے ۔ دیہاتوں سے آئے ہوئے لوگوں میں محبت ، احترام اور اخلاص ہے ۔ اچھے لوگوں کے ساتھ ساتھ نادان افراد بھی ہر جگہ موجود ہوتے ہیں ۔ پھولوں کے ساتھ کانٹے ضرور ہوتے ہیں ۔ بسا اوقات اسی شہر میں پینڈو کا لفظ سننے کو ملتا ہے ۔ بعض افراد ایک دوسرے کو طنزیہ پینڈو کہتے ہیں ۔ اسی سلسلے میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ بھی شیئر کرتاہوں ۔ ایک نوجوان دیہات سے شہر میں آیا ۔ وہ شہر میں رکشہ چلاتا تھا، کباڑ کا کام بھی کرتا تھا اور محنت مزدوری کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ ان پر مہربان ہوگیا ،وہ پاکستان سے باہر چلاگیا اور خوب پیسہ کمایا ۔ وہ شخص کافی امیر و کبیر ہوگیا، اچھا گھر بنایا اور گاڑی لی ۔ ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہاکہ بچوں کو شلوار قمیض نہ پہنائیں کیونکہ اس میں بچے پینڈو لگتے ہیں ۔ مجھے ان کی اس بات پر حیرت ہوئی کیونکہ وہ شخص صرف چند عشرے پہلے تک شلوار بھی نہیں پہنا سکتاتھا ، وہ دھوتی یعنی تہمد باندھتا تھا اوران کے آباو اجداد تہمد باندھتے تھے ۔ آج وہ اپنی اوقات اور ثقافت بھول گیا ۔ ہزاروں سال سے ہمارے پنجاب کے لوگ تہمد باندھتے آرہے ہیں ۔ مہذب قو میں کھبی مصنوعی پن کےلئے اپنی ثقافت کو ترک نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنی ثقافت پر ناز اور فخر کرتی ہیں ۔ آج بھی لاکھوں افرادتہمد اور شلوار قمیض زیب تن کرتے ہیں اور خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ شلوار قمیض قومی لباس ہے اور آرام دہ لباس ہے ۔ آپ اسی لباس میں سکون سے اٹھ بیٹھ سکتے ہیں 90 فی صد جینز وغیرہ پہننے والوں سے کُرتا اور تہمد استعمال کرنے والے زےادہ خوبصورت نظر آتے ہیں ۔ آپ کوئی بھی لباس پہنیں لیکن اپنے آباءواجداد کے لباس اور ثقافت کو برا بھلا، بدصورت نہ سمجھیں ۔ دیہاتی یا پینڈو کو کمتر نہ سمجھیں بلکہ ان کا احترام کریں ۔ انہی پینڈو کی وجہ سے آپ صبح سے رات تک گوشت ، سبزی، دالیں اور دیگر اشیاء کھاتے ہیں اور دودھ پیتے ہیں ۔ یہی پینڈو کام نہ کرتے یا سبزی منڈی یا مارکیٹوں میں اشیاء نہ لاتے تو آپ کا کیا بنتا;238; آپ کے کارخانے وغیرہ بند ہوجاتے ۔ ہماری زیست میں ان پینڈیوں کا اہم کردار ہے اور آپ ان کے بغیر قطعی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں ۔ یہ پینڈو آپ سے ہزار گنا زیادہ ہوشیار اور سمجھ دار ہیں ۔ یہ پینڈو بڑے بڑے مفادات کےلئے جھوٹ نہیں بولتے ہیں ۔ زیادہ ترپینڈو دھوکا اور فراڈ نہیں کرتے ہیں ۔ آپ مختصر زندگی کےلئے سب کچھ کرنے کےلئے آمادہ رہتے ہیں جبکہ پینڈوہمیشہ کی زندگی کےلئے کام کرتے ہیں ۔ پینڈو اپنے والدین اور رشتے داروں کا احترام اور عزت کرتے ہیں ۔ پینڈو چھوٹے بڑے کا لحاظ رکھتے ہیں ۔ پینڈو ملنسار اور مہمان نواز ہوتے ہیں ۔ آپ پینڈو کے پاس ایک مہینہ رہیں ، وہ آپ سے بیزار نہیں ہوگا لیکن آپ کسی مہمان کو چند دنوں کےلئے بھی اپنے گھر میں ٹھہرا نہیں سکتے ہیں ۔ شہروں میں کوئی فوت ہوجائے تو عموماً پڑوسی کوہی معلوم نہیں ہوتا ہے جبکہ پینڈ میں کوئی فوت ہوجائے تو سارے پینڈو اکھٹے ہوجاتے ہیں ۔ کوئی قبر کھودتا ہے ، توکوئی کفن دفن اورمیت کو غسل کے انتظامات کرتا ہے، تین دن تک پنڈ والے کھانے کا انتظام کرتے ہیں ۔ جن کی فوتیگی ہوجاتی ہے، ان کے غم میں سب برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔ ان کے غم کو کم کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔ اسی طرح خوشی کے مواقع پر سارے پینڈو اکٹھے ہوجاتے ہیں ، کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں ، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں ، ناچتے کودتے ہیں اور انجوائے کرتے ہیں ۔ پینڈو کھلے دل کے مالک ہوتے ہیں ،جب بھی ملتے ہیں ،ان کے چہروں پر مسکراہٹ سجی ہوتی ہے ۔ ان کے چہرے پھولوں کی طرح مسکراتے ہیں ۔ پینڈو مصنوعی پن کی بجائے حقیقت پسند ہوتے ہیں ۔ پینڈونمائش نہیں کرتے ہیں بلکہ سادگی اختیار کرتے ہیں ۔ پینڈو خوشی و غمی میں اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتے ہیں بلکہ جتنی چادر اتنے پاءوں پھیلاتے ہیں تاکہ بعد میں پریشانی نہ ہو ۔ پینڈو سادی اور صاف ستھری غذا کھاتے ہیں ، اس لئے وہ صحت مند رہتے ہیں ۔ پینڈو گیٹ کھولنے کےلئے گلی میں موٹرسائیکل یا گاڑی کا ہارن زور زور سے نہیں بجھاتے ہیں تاکہ پڑوسیوں کو تکلیف نہ پہنچیں ۔ پینڈو کوڑا کرکٹ اپنے گھروں کے قریب یا گلی میں نہیں پھینکتے ہیں ۔ پینڈو پان کھاکر صاف ستھری گلی یا سڑک پر شڑپ کرکے تھوکتے نہیں ہیں ۔ پینڈو کے پاس زیادہ ڈگریاں نہیں ہوتی ہیں لیکن وہ شائستہ انداز سے گفتگو کرتے ہیں ۔ پینڈو گلی کوچوں میں زور زور سے گفتگو نہیں کرتے ہیں ۔ پینڈو اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتے بلکہ چوپال میں بیٹھ کر گپ ش پ لگاتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ پینڈو مغرور بھی نہیں ہوتے بلکہ سب سے خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ۔ وہ واقعی بڑے مہذب ہوتے ہیں ۔ وطن عزیز پاکستان کے75فیصد لوگ دیہاتوں میں رہتے ہیں بلکہ جو لوگ آج شہروں میں رہتے ہیں ،وہ بھی چند عشروں پہلے تک اسی دیہاتوں میں رہتے تھے ۔ یہی افراد بالوں میں تےل لگاتے تھے، بڑے اور موٹے جوتے پہنتے تھے ۔ آج وہ شہروں میں رہتے ہیں تو کیا ہوا;238;قارئین کرام! انسان شہر میں رہے یا دیہات میں ،اگر وہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا ہے، دوسروں کوپرےشان نہیں کرتا ہے، دوسروں کا حق نہیں کھاتا ہے،دوسروں کی عزت کا خیال رکھتا ہے، اونچی آواز کی بجائے آرام سے گفتگو کرتاہے،سڑکوں اور گلیوں میں تھوکتانہیں ہے ۔ کوڑا کرکٹ خالی پلاٹوں یا گھروں کے قریب نہیں پھینکتا ہے ۔ دوسروں کو دکھ نہیں پہنچتا،کسی کو گزند نہیں پہنچتا،بڑوں کا احترام کرتا ہے ، غرور اور تکبر نہیں کرتا ہے، سب سے خندہ پشیانی سے ملتا ہے، وہی شخص زیادہ مہذب اورسمجھ دار ہے ۔ حقیقت میں پینڈو میں تقریباً یہ ساری خوبیاں ہوتی ہیں ۔ پینڈو واقعی گریٹ ہوتے ہیں ۔

]]>

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے