ڈیوڈلونگی 1990 ءسے قبل آٹھ سال تک نیوزی لینڈ کے وزیرِ اعظم رہے۔ میں 1995 ءمیں نیوزی لینڈ کے دورے پر تھا‘ وہاں میرے اعزاز میں ایک تقریب منعقد ہوئی ‘ تب ڈیوڈ لونگی حیات تھے اور میرے ساتھ والی نشست پہ بیٹھے تھے۔ گپ شپ شروع ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے ملک پاکستان کو کرپشن کھا گئی ہے ۔ ڈیوڈ لونگی نے حوالہ دیتے ہوئے بذاتِ خود مجھے بتایا کہ وزیرِ اعظم نواز شریف ہماری نیوزی لینڈ کی سرکاری سٹیل مل کے 49 فیصد یعنی آدھے شیئرز کے مالک ہیں‘ مفسرِ قرآن پروفیسر طاہر القادری فرماتے ہیں کہ میں سوچتا ہوں کہ ڈیوڈ لونگی کو مجھے کوئی غلط بات بتلانے کی ضرورت ہی کیا تھی‘۔ سوال یہ ہے کہ وہ پیسہ کس چینل سے گیا تھا‘ کیا ڈیکلئیر ہوا تھا اور کیسے گیا تھا‘ چیف جسٹس آف پاکستان اس کا نوٹس لیں۔ سپریم کورٹ‘ نیب یا کوئی بھی غیر جانبدار تحقیقی ادارہ نیوزی لینڈ کی حکومت سے رابطہ کرے اور 1980 ءتا 1995 ءاس دور کا ریکارڈ چیک کر لیا جائے کہ اس وقت نیوزی لینڈ کی سرکاری اسٹیل مل کے مالک کون کون تھے۔ ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری مزید فرماتے ہیں کہ ”اس طرح کے سینکڑوں واقعات ہیں‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ سوئیزر لینڈ ‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ سعودی عرب‘ یواے ای‘ قطر اور دیگر ممالک میں انھوں نے ہزار ارب سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے‘ ایک لمبی فہرست ہے دنیا بھر کے ممالک کی جہاں ان کی پارٹنر شپس ہیں اور بہت بڑا بزنس ہے“۔ بلاشبہ عالمی میڈیا میں ان پاکستانی ”شریفوں کی شرافت“ کے ڈنکے بجتے ہیں‘ ان کے کاروبار اور منی لانڈرنگ و کرپشن کی کی کہانیاں زیر گردش رہتی ہیں اور کافی مشہور بھی ہیں۔ اس سے بڑھ کر سرٹیفکیٹ اور کیا ہو سکتا ہے کہ BBC ایسے مستند و ممتاز ادارے نے ان کے بے مثال ولا زوال کرپشن کارناموں کو فلمایا بھی ہے۔ بڑے میاں جی کو بحری قزاق کا لقب عطا ہوا ہے اور سبحان اللہ چھوٹے میاں کو کفن چور کے نام سے نوازا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں ”شوباز“ نے ایک ایسا شوشہ چھوڑا ہے کہ سن کر ہنسی رُکتی ہی نہیں ہے‘ فرماتے ہیں کہ ”آج پوری دنیا میں یہ نیازی ندامت بن گیا ہے“۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ کہہ کون رہا ہے‘ خواجہ آصف کے الفاظ میں کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘ ڈیوڈ روز اورڈیلی میل کے قصے کیا کم تھے کہ اب بہت ہی بڑا امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کہہ رہا ہے کہ نواز شریف المعروف میاں مفرور نے K الیکٹرک کو ابراج گروپ سے 20 ملین ڈالر یعنی دو ارب روپے کی رشوت لے کر بیچا تھا“۔ رشوت لینے کے علاوہ ان شریف شہزادوں کی رشوت دینے کی ”دریا دلی“ بھی ہماری تاریخ کے سنہری حروف میں درج ہے جو جنرل آصف نواز جنجوعہ کو بی ایم ڈبلیو کی چابی دے کر خرید نے کی کوشش کی گئی تھی لیکن حاصل کچھ نہ ہوا‘ ہماری آنے والی نسلیں بھی اس راجپوت جرنیل پہ فخر کرتی رہیں گی جس نے اس قدر قیمتی گاڑی کی چابی واپس ان جعلسازوں اور جیب کتروں کے منہ پہ ماری۔ اللہ حاکمِ بر حق کی اس زمین و کائنات پہ ایسے ملنگ و دبنگ بندے بھی بستے ہیں جو کسی شاہانہ پروٹو کول کی پروا کرتے ہیں اور نہ ہی کسی بی ایم ڈبلیو ایسی نمائش و آسائش سہولتوں کو قبولتے ہیں جیسے جسٹس بندیال جی نے نہ صرف تیز رفتار نظام انصاف کی بنیاد رکھی ہے بلکہ فاضل چیف جسٹس نے سب سے پہلے بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان BMW گاڑی لینے سے انکار کر دیا ہے اور اس کے بعد چیف جسٹس ہی کے پروٹوکول کی اضافی گاڑیاں بھی واپس کرتے ہوئے اپنے لئے دیگر برادر ججوں جتنا پروٹوکول ہی برقرار رکھا ہے۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان کے اس عمل کو سلام پیش کرتا ہوں‘ میری سوھنی دھرتی دیس پاکستان کو ایسی ہی عظیم ہستیوں کی ضرورت ہے جو سادگی‘ کفایت شعاری اور میانہ روی کی راہیں اختیار فرما کر خدمتِ خلق ایسی عبادتیں کریں اور نیکیاں کمائیں۔ یہ اعلیٰ ظرفی اور بے نیازی دیکھ کر پیارے پاکستان کے غریب عوام بلکہ خاص و عام تمام اپنے قاضی القضاة کے اس عمل کو سراہیں گے اور فرمائیں گے کہ چیف جسٹس آف پاکستان ہو تو ایسا۔ خبریہ بھی ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال نے عہدے کے چارج سنبھالنے کے بعد اپنے ابتدائی بیس دنوں میں ہی سپریم کورٹ کے مختلف شعبوں میں قابل ذکر و مثبت اصلاحات کا عمل شروع کر دیا ہے جس سے مقدمات نمٹانے کی شرح میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور ملک بھر کے عوام اور سائلین و وکلاءکے نظام عدل و انصاف کے حوالے سے حوصلے بڑھے ہیں اور یہ اُمید پیدا ہوئی ہے کہ ملک میں نظام انصاف کی فراہمی کا عمل وقت اور حالات کے مطابق تیز تر ہو جائے گا۔ بصد تکریم و احترام میرے اپنے ہی ایک شعر کی صورت میں چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں عرض ہے کہ:۔
تُو قوم کی تقدیر کے دھارے کو بدل دے
تُو موجِ بلا خیز ہے کنارے کو بدل دے
28 ویں چیف جسٹس آف پاکستان‘ جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ سوشل میڈیا پر ججز کے خلاف تنقید کی جا رہی ہے‘ جو غیر آئینی ہے‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے“۔ میرے خیال میں فاضل چیف جسٹس کی یہ بات صد فیصد درست ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ موجودہ حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ فوج اور عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کو تین سے پانچ سال تک قید کی سزا اور فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو گی لیکن اپوزیشن پارٹیاں اس کےخلاف ہیں۔ اس ضمن میں سینئر قانون دان چوہدری اعتزازاحسن فرماتے ہیں کہ فیک نیوز سب سے زیادہ مریم نواز کے پاس ہیں ان کیخلاف قانونی کارروائی کی جائے جنہوں نے نواز شریف کی فیک میڈیکل
رپورٹس بنوائی ہیں۔
]]>
کالم
چیف جسٹس آف پاکستان ہو تو ایسا
- by Daily Pakistan
- فروری 27, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1258 Views
- 3 سال ago