کراچی: درآمدی و بیرونی ادائیگیوں کے دبا اور ذرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی کے رحجان کے باعث جمعہ کو انٹر بینک میں ڈالر کی پیش قدمی جاری رہی۔ افغانستان میں ڈالر ریٹ 238روپے کی سطح تک پہنچنے اور اسمگلنگ کے سبب اوپن مارکیٹ میں پھر سے ڈالر تیز رفتاری کے ساتھ اڑان بھرنے لگا ہے۔ جس سے ڈالر کے اوپن ریٹ بڑھ کر 226روپے کی سطح پر آگئے۔ انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے تمام دورانیے کے دوران ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا جس سے ایک موقع پر ڈالر کی قدر 64پیسے کیاضافے سے 219.01روپے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن بعد دوپہر ڈیمانڈ کم ہونے سے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر صرف 6پیسے کے اضافے سے 218.43 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔لیکن اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان تیز رفتار رہی جہاں ڈالر کی قدر ایک دم 4روپے کے اضافے سے 226روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ملک کیلیے مطلوبہ ذرمبادلہ کا بندوبست نہ ہونے سے یومیہ بنیادوں ذرمبادلہ کا بحران بڑھتا جارہا ہے کیونکہ حکومت کو یورو بانڈز تجارتی نوعیت کے بیرونی قرضوں اور سود کی مد میں ادائیگیاں ذرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہے جبکہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ گئی ہے اور سپلائی محدود ہوگئی ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ افغانستان میں ڈالر کی قدر 238روپے جبکہ پشاور میں ڈالر کی قدر 233روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے ڈالر کے وہ طلب گار جو افغانستان یا ملحقہ سرحدی علاقوں میں ڈالر اسمگل کرکے منافع کمانا چاہتے ان کی سرگرمیاں بڑھ گئیں ہیں جس پر قابو پانے کیلیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سخت حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسمگلروں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے سبب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی پرواز تیز رفتار ہوگئی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک سفر پر جانے والوں تعلیمی فیس کی ادائیگیوں اور بیرون ملک علاج کے لیے جانے والے صارفین اوپن مارکیٹ سے ڈالر کی خریداری کررہے ہیں تاہم اس ضمن میں خریداری سرگرمیاں محدود ہیں۔