اسلام آباد: حکومت خاموش تماشائی بنی رہی اور ڈالر پھلوں کے کریٹوں میں اسمگل ہوتے رہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 6.7 ارب ڈالر کی انتہائی کم ترین سطح پر گرنے کے باوجود حکومت ڈالر کی اسمگلنگ روکنے میں ناکام رہی،ڈالر کنوں کے کریٹس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ملی بھگت سے افغانستان جاتے رہے۔ یہ انکشاف ایک اجلاس میں سامنے آیا، جس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کسٹمز ایکٹ سرحد پار کرنسی کا بہاو روکنے کیلیے نئی پابندیوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جس سے اسمگلروں کے خلاف فوجداری مقدمات کے اندراج میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں کو وزیر خزانہ اسحق ڈار نے وزارت خزانہ بلایا، ریاست اپنی سرحدوں اور بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی حفاظت میں ناکام رہی جو اسمگلنگ کے اڈوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ وزیر خزانہ نے ایک بین وزارتی اجلاس کی صدارت کی جس میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ڈالر، گندم اور کھاد کی افغانستان اسمگلنگ روکنے میں ناکام کیوں رہے۔ وزارت خزانہ کی پریس ریلیز کے مطابق اجلاس میں بریفنگ کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کنوں کے کریٹس کے ذریعے ڈالر افغانستان اسمگل کیے جا رہے ہیں۔