اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ مجھے تب بلایا جاتا ہے جب معیشت کا بھٹہ بیٹھ جاتا ہے۔ چارٹرڈ اکانٹنٹ ایسوسی ایشن کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیر خزانہ نے پیشگوئی کی کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کم ہوگی اور میری کوشش ہے کہ ملک کو سودی نظام سے نکال کر اسلامی نظام لاں۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان نے اپنا کام مکمل کردیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے پاکستان نے اپنا کام مکمل کردیا ہے، ایف اے ٹی ایف کے اعلان سے پہلے ہم کوئی اعلان نہیں کرسکتے، معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنے میں آزاد ہوں اور آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا اس پر عمل کریں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈالر کے ریٹ اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔ ڈالر کی اصل قیمت 200 روپے سے کم ہے، مصنوعی اضافہ آئندہ چند روز میں کم ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبوں میں توانائی کے منصوبوں کیلئے نجی شعبے سے مدد لی گئی ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر بھارت روس سے تیل لے سکتا ہے تو ہم بھی لے سکتے ہیں جبکہ روس سے تیل کے حصول کے لیے حکومت غور کررہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایم ایل ون منصوبہ 6 ارب ڈالر میں بننا تھا جس کے لیے پاکستان کو قرض درکار تھا اگر اس وقت بن جاتا تو 6 ارب ڈالر میں بن جاتا لیکن منصوبے پر 12 سے 13 ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ہم میثاق معیشت کے شروع سے خواہاں ہیں اسحاق ڈار نے کہا کہ گورننس میں بہتری کے لیے ٹیکنالوجی کا فروغ ضروری ہے، دنیا بھر میں معیشت کی صنعتکاری جدید ٹیکنالوجی پر استوار ہورہی ہے، ہم میثاق معیشت کے روز اول سے خواہاں ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سے پہلے بھی جب 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تھی تو شدید اقتصادی چیلنجز تھے، جسے ہم نے نکالا اور سیاست پر ریاست کو ترجیح دی اب بھی یہی کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم جہاں پہنچ چکے ہیں ہمیں اس صورتحال سے نکلنے کے لیے بہت کام کرنا ہوگا، جب کوئی ملک کا سربراہ خود بیرون ملک جاکر کہے گا کہ ہمارا ملک خسارے میں ہے تو کون پاکستان آکر سرمایہ کاری کرے گا، ایسے میں کوئی پاگل ہی ہوگا جو آکر سرمایہ کاری کرے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ جاپان میں ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی کی شرح 257فیصد ہے جبکہ امریکا کی شرح بھی بہت زیادہ ہے، کوئی ملک دنیا کے سامنے جاکر اس طرح اپنے ملک کے امیج کو نقصان نہیں پہنچاتا مگر ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ ملکی مفاد کو نقصان پہنچانا ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے سیلاب سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے 20 لاکھ گھر متاثر ہوئے جبکہ 32 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا نقصان ہوا اور ابتدائی اندازے کے مطابق سیلاب کے باعث 16.2 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے۔