اسٹینفرڈ: امریکی ماہرین نے ایک وائرلیس امپلانٹ (پیوند) بنایا ہے جو نینوذرات گرم کرکے سرطان کے خاتمیمیں مدد دیتا ہے۔ اپنی نوعیت کا یہ منفرد آلہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے بنایا ہے جو سب سے تیزی سے جان لیوا دماغی سرطان کے مریضوں کی زندگی بڑھا سکتا ہے۔ جب اسے کھوپڑی اور اس کی جلد کے درمیان نصب کیا جائے تو یہ حرارت کی بدولت نینوذرات گرم کرتاہے جس سے کینسر کے خلیات کو اندر سے تباہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ دماغی سرطان کی ایک قسم گلیوبلاسٹوما کا مرض اتنا شدید ہوتا ہے کہ صرف پانچ سال تک زندہ رہنے کا بھی پانچ فیصد امکان ہوتا ہے۔ اس میں دماغ کا متاثرہ حصہ الگ کرنا ہوتا ہے، پھرکیموتھراپی اور ریڈیائی تھراپی کے کئی دور چلتے ہیں لیکن مرض بار بار لوٹ آتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو چوہوں پر آزمایا گیا ہے۔ یہ کم تکلیف دہ طریقہ ہے جس کے تحت 15 دن تک روزانہ 15 منٹ تک علاج کیا گیا اور چوہے معمول کے تحت ادھر ادھر گھومتے رہے۔ تاہم اس علاج سے ان کی زندگی میں اضافہ ہوا ہے اور سرطان کی رفتار سست ضرور ہوئی۔ اس میں دماغی رسولیوں کے اندر خاص قسم کے انتہائی باریک نینوذرات داخل کئے جاتیہیں۔ پھر انہیں باہر سے حرارت دے کر سرگرم کیا جاتا ہے۔ یہ کام برقی مقناطیسی، میدان، الٹراسانڈ یا روشنی سے کیا جاسکتا ہے۔ جیسے ہی سرطانی خلیات گرم ہوتے ہیں وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اسٹینفرڈ ماہرین کا آلہ کھوپڑی اوراس کی کھال کیدرمیان لگایا جاتا ہے اور انفراریڈ شعاعیں خارج کرتا ہے۔ اس عمل میں سونے سے بنے ستاروں جیسی شکل والے نینوذرات رسولی میں داخل کئے جاتے ہیں۔ اور انہیں باہر سے 5 درجے سینٹی گریڈ تک گرم کیا جائے۔ جب یہ عمل کیا گیا تو سرطانوی خلیات تیزی سے تباہ ہونے لگے۔ پھر انفراریڈ شعاعوں کی توانائی اور طولِ موج (ویولینتھ) میں کمی بیشی سے مختلف جسامت کی رسولیاں تباہ کی جاسکتی ہے۔ یہاں تک کہ دماغی سرطان کے شکار چوہوں میں زندہ رہنے کا دورانیہ تین گنا زائد ہوگیا اور جب کیموتھراپی کی گئی تو اس سے مزید بہتری سامنے آئی۔ اگرچہ چوہوں پر کی گئی تحقیق انسانوں کے کام آتی رہی ہے لیکن فی الحال انسانوں پر اس کی آزمائش کئی برس کی دوری پر ہے۔