اسلام آباد: عالمی بینک نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت 17 صوبائی وزارتوں پر 710 ارب روپے خرچ کر رہی ہے۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ شدید مالی بحران کے باوجود پاکستانی حکومت تاحال 17 ایسی وزارتوں کے ترقیاتی منصوبوں کی مالی معاونت پر سالانہ 710 ارب روپے خرچ کر رہی ہے جو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی ذمہ داری میں آتی ہیں، فنڈز کو محدود رکھنے کے متعدد اقدامات کے باوجود اس طرح کے اخراجات وفاقی حکومت کے قرضوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ مذکورہ وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی سے پہلے وفاقی حکومت ان پر جی ڈی پی کا 0.39 فیصد خرچ کر رہی تھی جو بعد میں 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو دے دی گئیں۔ عالمی بینک کے ساتھ کام کرنے والے ایک سینئر ماہر اقتصادیات ڈیریک چن نے بتایا کہ پیپلز پارٹی سمیت بعد میں آنے والی حکومتوں نے ان تمام وزارتوں کو بحال کر دیا جس کے نتیجے میں اخراجات دگنے ہو رہے ہیں۔ ان 17 وزارتوں کے اخراجات جی ڈی پی کے 0.59 فیصد یعنی 328 ارب روپے سالانہ ہو چکے ہیں۔ عالمی بینک نے اپنی حالیہ رپورٹس میں پاکستانی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے اخراجات صرف ان شعبوں میں کرے جو آئین کے تحت اس کی ذمہ داری ہیں،آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت وفاق نے اس بنیاد پر کہ نئی وزراتوں کی صوبوں کو منتقلی کے بعد صوبوں کو اضافی وسائل کی ضرورت ہوگی۔ قابل تقسیم پول میں صوبائی حصہ 11 فیصد سے بڑھا کر 57.5 فیصد کر دیا تھا،تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان تمام وزارتوں کو وزرا اور بیوروکریسی کو کھپانے کیلیے بحال کیا گیا،یہی وجہ ہے وفاق 18ویں ترمیم کو اپنی غلط پالیسی قرار دیتا ہے۔ ڈیرک چن نے کہا کہ وفاق نے عوامی ترقیاتی منصوبوں کا نصف یا 315 ارب روپے بھی ان منصوبوں پر خرچ کیے جو صوبائی ذمہ داری میں آتے ہیں،ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مزید 70 ارب روپے سالانہ دیئے جاتے ہیں، وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران صرف قرضوں کی ادائیگی پر 3.179 ٹریلین روپے خرچ کیے جو اس کی خالص آمدنی سے 17 ارب روپے زیادہ ہے۔