نوٹرے ڈیم: یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے سائنس دانوں نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ روز مرہ کے استعمال کے پلاسٹک کے برتنوں میں موجود پی ایف ایز (پر اور پولی فلورو الکائل مرکبات) ہماری غذا میں شامل ہوسکتے ہیں۔ پی ایف ایز فلورین پر مشتمل ایسے نقصان دہ کیمیا ہوتے ہیں جن کو فار ایور کیمیکلز کہا جاتا ہے۔ انوائرنمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لیٹرز میں شائع ہونیو الی ایک نئی تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ زیادہ کثافت والے فلورین زدہ پولی ایتھائلین (ہائی ڈینسٹی پولی ایتھائلین :ایچ ڈی پی ای) کے پلاسٹک کے برتنوں(عمومی طور پر استعمال ہونے والے برتن یعنی کھانے کے برتن، کیڑے مار ادویات کے لیے استعمال ہونے والی بوتلیں ، پرسنل کیئر کی اشیا وغیرہ) میں پی ایف ایز موجود ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق ای پی اے کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ کے بعد کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ یہ برتن کیڑے مار ادویات میں بڑی مقدار میں پی ایف ایز کا سبب بن رہے تھے۔تاہم، اس نئی تحقیق میں پہلی بار ان برتنوں سے کھانے میں رِسنے والے پی ایف ایز کی مقدار اور رِسنے کے عمل پر درجہ حرارت کے اثرات کی پیمائش پیش کی گئی۔ تحقیق کے نتائج میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پی ایف ایز فلورینیٹڈ برتنوں سے غذا میں داخل ہوجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خطرناک کیمیا جسم میں براہ راست جا سکتے ہیں اور مختلف اقسام کے کینسر سمیت متعدد نقصان رساں صحت کے مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔ جامعہ میں طبعیات کے پروفیسر اور تحقیق کے مصنف گراہم پِیزلی کا کہنا تھا کہ سائنس دانوں نے ان برتنوں میں صرف پی ایف ایز کی مقدار کی پیمائش نہیں کی بلکہ وہ انسان پر منکشف ہونے والے پی ایف یز کی مقدار کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا اہم ہے کہ اس قسم کے برتن غذا کو ذخیرہ کرنے کے مقصد سے نہیں بنائے جاتے بلکہ ان برتنوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کیے جانے سے کوئی چیز روکتی نہیں ہے۔محققین کے مطابق تمام ایچ ڈی پی ای پلاسٹک فلورینیٹڈ نہیں ہوتے۔ اکثر اوقات صارف کے لیے یہ جاننا ناممکن ہوتا ہے کہ آیا کوئی برتن فلورینیٹڈ ہے یا نہیں۔ گراہم پیزلی کے مطابق اگر ان برتنوں میں کیڑے مار ادویات رکھی جائیں اور پھر فصلوں پر ان ادویات کا استعمال کیا جائے تو اس طریقے سے دوا میں موجود پی ایف ایز انسان کی غذا میں شامل ہوجائیں گے۔
سا ئنس و ٹیکنالوجی
پلاسٹک کے برتن میں موجود پی ایف ایز ہماری غذا کا حصہ بن سکتے ہیں
- by web desk
- اپریل 7, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 968 Views
- 2 سال ago