صحت

ماہ رمضان میں خون کے عطیات میں 70 فیصد کمی مریضوں کو مشکلات

ماہ رمضان میں خون کے عطیات میں 70 فیصد کمی مریضوں کو مشکلات

کراچی: ماہ رمضان کے دوران خون کے عطیات میں 70 فیصد تک کمی آنے سے تھیلیسیمیا، ہیموفیلیا اور خون کے دیگر امراض میں مبتلا بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر شاہد رسول نے ایکسپریس کو بتایا کہ ماہ صیام میں خون کے عطیات میں تقریبا 70 فیصد کمی آگئی ہے، جس کی وجہ سے تھیلیسیمیا اور خون کے دیگر امراض میں مبتلا بچوں، خون کی کمی کا شکار خواتین اور حادثات میں زخمی ہونے والے شہریوں کو خون ملنا مشکل ہوگیا ہے اور مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے محمدی بلڈ بینک کی ایگزیکٹیو میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر مائسہ سجیل نے کہا کہ عمومی طور پر لوگوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ روزے کی حالت میں خون کا عطیہ کرنا درست نہیں کہ اس سے کمزوری ہوجائے گی اور کہیں وہ روزہ رکھنے سے قاصر نہ ہوجائیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہ صیام میں جہاں ہر انسان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمائے ،اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس صدقہ جاریہ کے موقع کو اپنے ہاتھ سے نہ گنوائیں،ایک بار خون عطیہ کرنے سے خون کے تین امراض میں مبتلا مریضوں کا علاج ممکن ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مائسہ سجیل نے کہا کہ جو افراد خون عطیہ کرنے کی شرائط پر پورا اترتے ہیں انہیں خون عطیہ کرنا چاہیے، خون کے عطیات دینے سے صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں،بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے،دل کو صاف خون کی فراہمی ہوتی ہے، جبکہ دو دن کے اندر خون دوبارہ بن جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نایاب بلڈ گروپ او نیگیٹیو کا انتظام کرنا معمول کے دنوں میں بھی کافی مشکل ہوتا ہے لیکن رمضان میں یہ مشکل کئی گنا بڑھ جاتی ہے،جس کی وجہ سے او نیگیٹیو کی تلاش کرنے میںگھنٹوں گزر جاتے ہیں اور ایسی صورتحال میں تھیلیسیمیا اور ہیموفیلیا سے متاثرہ افراد انتہائی مشکل کا شکار ہوجاتے ہیں کیوںکہ ان کے لیے انتقال خون لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان میں بھی خون عطیہ کیا جاسکتا ہے بس خون عطیہ کرنے والے افراد اپنے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی نہیں ہونے دیں ،پانی اور مشربات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں اور کوشش کریں کہ سحر و افطار میں ایسی غذا لیں جس میں پانی کی مقدار زیادہ ہو۔ والدین کا کہنا ہے حکومت کو چاہیے کے اندرون سندھ میں بھی ان امراض کے لیے ہیلتھ کیئر سینٹرز قائم کریں تاکہ اندرون سندھ سے ہمارے جیسے خاندانوں کو علاج کے لیے کراچی نہ آنا پڑے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے