تازہ ترین

آٹھ رکنی بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل پر عمل در آمد روک دیا

آٹھ رکنی بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل پر عمل در آمد روک دیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی لارجر بینچ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل 2023 پر عمل در آمد روک دیا اور اس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا۔ عدالت عظمی میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کی سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، جس کے تحت رینجرز کی بڑی تعداد عدالت عظمی کے اندر اور باہر موجود جب کہ پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔ درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں۔ امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کو انتخابات نہ کروانے پر از خود نوٹس لینا پڑا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ 3اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے۔ عدالت اور ججز پر ذاتی تنقید کی گئی۔ حکومتی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمے دار ہیں۔ وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مجوزہ قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد بل صدر کو بھجوایا گیا۔ صدر مملکت نے اعتراضات عائد کر کے بل اسمبلی کو واپس بھیجا۔ سیاسی اختلاف پر صدر کے اعتراضات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد 10 دن میں بل قانون بن جائے گا ۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ اپنے رولز خود بناتی ہے۔ امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ بل کے تحت از خود نوٹس اور بینچز کی تشکیل کا فیصلہ 3 رکنی کمیٹی کرے گی۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ بل قانون بننے کے لائق ہے؟۔ کابینہ کی جانب سے بل کی توثیق کرنا غیر قانونی ہے۔ بل کابینہ میں پیش کرنا اور منظوری دونوں انتظامی امور ہیں۔ بل کو اسمبلی میں پیش کرنا اور منظوری لینا بھی غیر آئینی ہے۔بل زیر التوا نہیں بلکہ مجوزہ ایکٹ ہے۔ وکیل نے کہا کہ صدر منظوری دیں یا نہ دیں ایکٹ قانون کا حصہ بن جائے گا۔ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر سپریم کورٹ کا کوئی وجود نہیں۔ چیف جسٹس کی تعیناتی ہی سے سپریم کورٹ مکمل ہو کر کام شروع کرتی ہے۔ چیف جسٹس کے بغیر دیگر ججز موجود ہوں بھی تو عدالت مکمل نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے