ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں عمران خان کے قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کر دیے۔ دورانِ سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان کی عدالت میں پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی پیش ہوئے۔ پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عدالت میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو عدالت نے ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے، ان کی گزشتہ سماعت پر حاضری سے استثنی کی درخواست منظور نہیں ہوئی تھی، عمران خان کی آج بھی حاضری سے استثنی کی درخواست منظور نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری ہونے چاہئیں، ان کے قابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری ویسے ہی جاری ہیں۔ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان کے علاوہ کسی اور ملزم کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ ہوتا؟ وارنٹ پر عمران خان کی جانب سے ہمیشہ اپیل دائر ہو جاتی ہے، لیکن وہ خود عدالت میں پیش نہیں ہوتے، توشہ خانہ کیس میں وارنٹ کی تعمیل کے لیے جانے والے ایس پی کو تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ پراسیکیوٹر رضوان عباسی کی جانب سے عمران خان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹِ گرفتاری جاری کرنے کے ساتھ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی استدعا بھی کی گئی۔ عمران خان کے وکلا کے آنے تک عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔ عدالت میں وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عمران خان کے وکلا علی بخاری اور فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہو گئے۔ فیصل چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے دیگر مقدمات کی ضمانت کا معاملہ زیرِ التوا ہے۔ علی بخاری نے بتایا کہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد انتظامیہ نے عدالت شفٹ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق وفاقی حکومت سے عدالت نے جواب طلب کر رکھا ہے، عمران خان کو ان کی مرضی کی سیکیورٹی مہیا کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جج نے کہا کہ عمران خان کی حاضری سے استثنی کی درخواستیں 2 بار خارج ہو چکی ہیں۔