وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ملکی سسٹم میں عوامی نمائندوں کے مینڈیٹ کا کوئی نعم البدل نہیں، سپریم کورٹ کوشش کررہی ہے کہ حکومت مدت پوری نہ کرے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ عوامی نمائندے کروڑوں ووٹ لیکر پارلیمنٹ پہنچے ہیں، ملکی سسٹم میں عوامی نمائندوں کے مینڈیٹ کا کوئی نعم البدل نہیں، پارلیمنٹ کے مینڈیٹ پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں، پچھتر سال سے عوامی نمائندے عوام کے پاس جا کر اپنے عہد کی تجدید کرتے ہیں، کسی ادارے نے عوام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی عوامی نمائندوں نے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہونے والے کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی، ایوان کی کارروائی ٹی وی پر دکھائی جاتی ہے مگر عدالتی کارروائی نشر نہیں کی جاتی، ہمیں سپریم کورٹ کا احترام ہے، سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی کارروائی کے منٹس دینے ہیں دے دیں مگر اسپیکر قومی اسمبلی بھی سپریم کورٹ سے عدالتی کارروائی کا ریکارڈ طلب کریں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پنچایت لگانا، مذاکرات کرانا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے، ہمیں متحد ہوکر ہر صورت پارلیمنٹ کا دفاع کرنا ہو گا، پی ٹی آئی کو 2018 میں سہولت کار ملے اب پھر مل گئے ہیں، پارلیمنٹ کو سہولت کاری کے سامنے دیوار بننا ہو گا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ وزیراعظم کی گردنیں لینے کا رواج ختم ہونا چاہیے، ہمیں اپنے وزیراعظم کا تحفظ کرنا ہو گا، وزیراعظم کسی بھی جماعت کا ہو گا تحفظ کرنا ہو گا، ہم سب کو باہمی تفریق کو بھول کر پارلیمنٹ کی عزت و وقار اور سربلندی کیلئے لڑنا چاہیے اور کسی بھی وزیراعظم کی قربانی کو روکنا چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں وزرائے اعظم کو گھروں کو بھجوایا گیا، نوازشریف کو تاحیات نااہل کیا گیا، اب ہمیں ججز کی تاریخ کا حساب دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسمبلی میں اسپیشل کمیٹی بنائی جائے جو عدالت اور ججز کے حوالے سے معاملات کو دیکھے اور چھان بین کرے۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے بعد حکومتوں نے مدتیں پوری کیں، سپریم کورٹ کوشش کر رہی ہے حکومت مدت پوری نہ کرے، آئین اور پارلیمنٹ سب سے مقدم ہیں اور اس سے زیادہ کوئی اور چیز اہم نہیں، عوامی نمائندے ہر پانچ سال بعد عوام کو حساب دیتے ہیں اور مسلسل رابطوں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شاہراہ دستور پر اعلی عدلیہ کے ججز کیلئے روٹ لگتے ہیں مگر وزرا تک کیلئے روٹ نہیں لگتے، اسی عدلیہ نے جنرل مشرف کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی، ماضی میں ایک شخص نے ذاتی ہوس کیلئے آئین توڑا، اب اگر جنگ لڑنی ہے تو پھر کھل کر جنگ ہوگی اور پارلیمنٹ کو اپنا دفاع کرنا ہوگا اور 75 سال بعد اب خاموش بیٹھے گی نہ اپنے وزیراعظم کی قربانی دے گی۔