پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام ف مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ 60 امریکی اراکین کانگریس نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان کو تحفظ دینے کے لئے خط لکھا ہے۔ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آج 60 امریکی اراکین کانگریس نے سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن کو خط لکھا جس میں عمران خان کو تحفظ فراہم کرنے کا کہا گیا ہے، خط سے واضح ہوگیا کہ پی ٹی آئی کس کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، عمران خان کو ایجنڈے پر عمل کے لئے لانچ کیا گیا، ہمیں اپنے ملکی معاملات میں کسی غیر ملکی مداخلت برداشت نہیں۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجرم اور چور کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے، عمران خان کی مکمل سہولت کاری کی جارہی ہے، 9 اور 10 مئی کو جو ہوا وہ بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں، عدالتیں مجرموں کو رہا کر کے حوصلے بڑھائے جا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم سربراہ کا کہنا تھا کہ ریاست کو کمزور کیا جا رہا ہے، بلوائیوں نے ملک کو جلایا، پھر بھی تحفظ دیا جا رہا ہے، ہم نے اس صورتحال کا سامنا کرنا ہے۔ عوام کے صبر و تحمل کا امتحان نہ لیا جائے، صورتحال سے غافل نہیں، صورتحال کا مقابلہ کریں گے، ہم سب تیار ہیں۔ آرمی ایکٹ سے متعلق سوال پر امیر جے یو آئی ف نے کہا کہ جب فوجی تنصیبات پر حملے ہوں اور شہری عدالتوں کا یہ حال ہو تو آرمی ایکٹ اس وقت نہیں آئے گا تو کب آئے گا، البتہ فوج آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کرے گی اور ہم عوامی عدالت میں کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی محبت میں پگھلنے والے ملک کا سوچیں، میں مذاکرات کی حمایت نہیں کروں گا، ساری پارٹیاں ایک طرف اور دوسری طرف عمران خان ہیں۔ تمام مقدمات میں ضمانت دی جا رہی ہے، گرفتاری سے روکا جا رہا ہے، فوجداری کیسز میں بھی عمران خان کی گرفتاری سیروک دیاگیاہے، اب بھی یہی صورتحال رہی تو اس کامطلب ہے یہ قوم کے ساتھ اعلان جنگ ہے، کیاکبھی کسی مجرم یا جرم کو عدالت سے رعایتیں یا تحفظ ملاہے؟ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ لاڈلے کیلئیعدالتیں آئین اور قانون سے بھی کھلواڑ کر رہی ہیں، عمران کو رعایت دینے کیلئے کسی آئین و قانون کا احترام نہیں کیا جا رہا، مجرموں کو رہا کر کے ان کے حوصلے بڑھائے جا رہے ہیں، کیاآج تک ریمانڈ کیدوران کسی مجرم کوضمانت ملی؟ کیاکسی مجرم کوآج تک کسی جج کی مرسڈیزمیں لایا گیا؟ کیاکسی مجرم کوآج تک ججز کے وی آئی پی گیٹ سیلایاگیا؟ یہ ساری چیزیں عدالتوں کو داغدار کر رہی ہیں۔