سا ئنس و ٹیکنالوجی

پاکستانی سائنسداں نے زحل کے چاند پر حیات کے لیے ضروری فاسفورس دریافت کرلیا

پاکستانی سائنسداں نے زحل کے چاند پر حیات کے لیے ضروری فاسفورس دریافت کرلیا

کراچی: پاکستانی سائنسداں اس اہم ٹیم کا حصہ ہیں جس نے ہمارے نظامِ شمسی میں حیات کے لیے ایک ضروری عنصر دریافت کرلیا ہے۔ کائنات میں کسی زندگی کے آثار تلاش کرنے والی اس ٹیم میں ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اہم کردار ادا کیا ہے جو یونیورسٹی آف فِریئے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سیارہ زحل کے برفیلے چاند، اینسلیڈس پر فاسفورس دریافت کیا ہے جو حیات کے لیے انتہائی ضروری لیکن نایاب عنصر بھی ہے۔ جامعہ فِریئے سے وابستہ پروفیسر فرینک پوسٹبرگ بین الاقوامی سائنسدانوں کی ٹیم کے سربراہ ہیں جنہوں نے کئی برس تک ناسا کے خلائی جہاز کیسینی کے ڈیٹا کا بغورجائزہ لے کر بتایا ہے کہ اینسلیڈس چاند کی گہرائی ایک وسیع سمندر موجود ہے جہاں فاسفیٹس کی شکل میں فاسفورس موجود ہے۔ پروفیسر فرینک پوسٹبرگ نے ایکسپریس کو بتایا کہ ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اینسلیڈس کے سمندری پانی میں بڑی مقدارمیں فاسفیٹس موجود ہیں اور ہمارے ارضی کیمیائی تجربات بتاتے ہیں کہ آخر زمینی سمندر کے مقابلے میں اینسلیڈس کے بحر میں اس اہم مرکب سے کیوں مالامال ہے ۔ فاسفورس ہماری زمین پر بھی ایک نایاب عنصر ہے جو مٹی کو زرخیز تو بناتا ہی ہے لیکن زندگی کی کتاب ڈی این اے اور اس سے وابستہ آراین اے کی تشکیل میں بنیادی ڈھانچے کا کردار ادا کرتا ہے، یہی وجہ ہے برفیلا اینسلیڈس حیات کے لیے ایک موزوں ترین امیدوار ہوسکتا ہے۔ تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے اپنی ای میل میں ایکسپریس کو بتایا کہ اینسلیڈس پر فاسفیٹ کی دریافت کے بعد وہاں زندگی کے لیے انتہائی ضروری چھ اہم عناصر کی تعداد پوری ہوچکی ہے جن میں کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن، فاسفورس اور سلفر شامل ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ فاسفورس حیات کے لیے انتہائی بنیادی اینٹ کی طرح ہے جو ڈی این اے کے علاوہ بھی حیات کے لیے بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر نوزیر خواجہ نے مزید کہا کہ اس (فاسفورس کی) دریافت کے بعد زحل کا چاند زمین سے ماورا زندگی کی تلاش کے لیے ایک اہم مقام بن چکا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید آلات و ٹیکنالوجی سے لیس نئے خلائی مشن اس جانب بھیجے جائیں تاکہ ہم حقیقی طور پر جان سکیں کہ آیا اس کا سمندر میں حیات کے لیے کتنا اور کس قدر موزوں ہے۔ صرف 500 کلومیٹر وسیع انسلیڈس ، سیارہ زحل کا چھٹا بڑا چاند ہے۔ اس کی تسخیر کا سہرا ناسا کے شاندار خلائی مشن، کیسینی کے سر جاتا ہے جو 2004 میں حلقوں والے خوبصورت زحل پر پہنچا تھا۔ کیسینی نے کل 453,048 تصاویر لیں جو اس سیارے اور چاندوں کی تھیں اس نے سیارے کے درجنوں چاندوں کے 162 چکر کاٹے جو منصوبے کے تحت تھے۔ اسی خلائی جہاز نے مزید چھ چاندوں کی دریافت میں ہماری مدد کی۔ سب سے بڑھ کر 635 جی بی ڈیٹا بھیجا جس پرآج بھی غور جاری ہے۔ اس ڈیٹا اور معلومات کی روشنی میں ہم زمین والوں نے ایک دو نہیں بلکہ 3948 تحقیقی مقالے تحریر کئے۔ پھر 2017 میں اسے جان بوجھ کر زحل کی فضا میں دھکیل کر آخری سفر پر روانہ کیا گیا جہاں یہ تباہ ہوگیا۔ لیکن یاد رہے کہ کیسینی کا ڈیٹا مزید کئی برس تک سائنسدانوں کو تحقیق اور دریافت میں مصروف رکھے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے