اسلام آباد: سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر 9 رکنی لارجر بینچ معاملے پر نئی پیش رفت سامنے آئی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جانب سے 9 رکنی لارجر بینچ کی سماعت سے متعلق نوٹ اپ لوڈ کیا گیا تھا، بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا نوٹ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔ اس سے قبل جسٹس فائز عیسٰی کا 6 رکنی بینچ کو غیر قانونی قرار دینے کا نوٹ بھی ہٹایا گیا تھا۔ جسٹس فائز عیسٰی نے 184/3 کے رولز بنانے تک مقدمات ملتوی کرنے کا حکم دیا تھا۔ واضح رہے کہ جسٹس فائز عیسٰی نے یہ حکم حافظ قرآن کو اضافی نمبروں کے ازخود نوٹس میں دیا تھا، عدالتی حکم کو رجسٹرار کے سرکلر کے ذریعے اور بعد ازاں 6 رکنی بینچ نے ری کال کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا نوٹ دوسری مرتبہ اپ لوڈ ہونے کے بعد ویب سائٹ سے ہٹایا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا ہٹایا جانے والا نوٹ 30صفحات پر مشتمل تھا۔جسٹس فائز عیسٰی نے اپنے نوٹ میں کہا تھا کہ نہ میں نے کبھی کسی چیف جسٹس سےگزارش کی کہ مجھے کسی کام کے لیے کسی رجسٹری بھیجا جائے، نہ کبھی رجسٹرار آفس کو کسی نوعیت کا مقدمہ لگانے یا نہ لگانے کا کہا۔ جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ جب سے میری تعیناتی عدالت عظمٰی میں ہوئی تب سے آج تک کبھی کسی مقدمے کی سماعت سے گریز نہیں کیا، ہمیشہ کوشش رہی کہ ہر فیصلہ ایک ہی پیمانے سے آئین و قانون کے مطابق کروں۔جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ ہمیشہ کوشش رہی کہ مقدمے کے ہر فریق کو ایک نظر سے دیکھوں، پوری سراعت سے کہتا ہوں خود کو سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف مقدمے سے خود کو دستبردار نہیں کررہا، اب اگر میں یہ مقدمات سنوں تو میں اپنے آئینی و قانونی موقف کی خلاف ورزی کروں گا۔انہوں نے اپنے نوٹ میں کہا تھا کہ آج دن تک چیف جسٹس نے میرے موقف کی تردید نہیں کی، سپریم کورٹ پریکسٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی معطلی کے بعد سے عدالت میں نہیں بیٹھا، بلکہ انھوں نے تو جواب دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ مجھ ناجیز کی رائے میں عدالت عظمٰی کےسربراہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، مجھے ادراک ہے کہ چیف جسٹس نے اپنے ساتھیوں کو بلا وجہ غیر ضروری کشمکش میں الجھا دیا ہے، جسٹس طارق مسعود نے بھی شروع میں کسی بینچ میں بیٹھنے سےکنارہ کشی اختیار کی۔ جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ جسٹس طارق مسعود کے موقف کا احترام کرتا ہوں اسی طرح وہ میرے موقف کا احترام کرتے ہیں، عدالت عظمٰی جیسا آئینی ادارہ فرد واحد کی مرضی سے نہیں چل سکتا، سپریم کورٹ پریکسٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا اطلاق چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر ہوتا ہے۔ جسٹس فائز عیسٰی نے کہا کہ سینئر ترین جج کی حیثیت میں سمت کو درست رکھنا میرا فریضہ ہے، ججز کا گلدستہ فضا معطر رکھے گا جب کسی کو شک نہ ہو مخصوص فیصلہ کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ جب سے عمر عطا بندیال چیف جسٹس بنے انھوں نے مجھ سے یا جسٹس سردار طارق مسعود سے مشورہ نہیں کیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام ضروری معاملات اپنی مرضی یا اپنے چنیدہ اہلکاروں کے زریعے چلائے۔جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ باقی ججز کی حیثیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ آجتک فل کورٹ میٹنگ نہیں بلائی گئی، مدعاعلیہان اور وکلاء کو ترجیح دی گئی، فوجی عدالتوں کیخلاف دائر درخواستوں سے ملتا جلتا کیس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، پشاور ہائیکورٹ نے حراستی مراکز اور ان سے متعلق قوانین غیر آئینی قرار دیے تھے۔ نوٹ میں کہا گیا کہ اکتوبر 2019میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل آئی، پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ جب سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اس وقت وہ وزیراعظم تھے جو آج فوجی عدالتوں کیخلاف ایک درخواست گزار ہیں، پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا، مقدمہ ابھی زیر سماعت ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں کہا کہ میں نے صحافیوں کے حقوق سے متعلق کیس پر نوٹس لیا، میرے حکمنامے کو معطل کرنے کا فیصلہ جسٹس منیب اختر نے تحریر کیا، جسٹس منیب اختر نے فیصلے میں سات ممالک کے نظائرتو دیے لیکن صحافیوں کے حقوق کی پامالی پر ایک لفظ بھی نہ لکھا۔انہوں نے کہا کہ اتفاقاً ملٹری کورٹس کو چیلنج کرنے ایک درخواست گزار اس وقت وزیراعظم تھے، افسوس کا مقام ہے بعض ججز کے فیصلے رجسٹرار مسترد کر دیتا ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ نے سرکلر جاری کرکے میرے فیصلے کو غیر موثر کیا، رجسٹرار نے تزلیل کرنے کیلئے سرکلر کی کاپیاں سپریم کورٹ کی تمام رجسٹریوں کے نوٹس بورڈز پر آویزاں کروائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پھر چیف جسٹس پاکستان نے اپنی مرضی کا چھ رکنی بنچ تشکیل دیا، 6 رکنی بنچ نے میرے فیصلے پر نظرثانی کی لیکن وہ ججز جو پہلے بنچ کا حصہ تھے انھیں چھ رکنی بنچ میں شامل ہی نہیں کیا گیا، اس پر میں نے ایک نوٹ لکھا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے اپنے نوٹ میں کہا متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے، میں جب چیمبر ورک پر تھا تو چیف جسٹس پاکستان نے مجھ سے پوچھا کب تک چیمبر ورک کرونگا، اس کا جواب چیف جسٹس پاکستان خود دے سکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیونکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس سننے والے بنچ کے سربراہ وہ خود ہیں، چیف جسٹس پاکستان ہی جانتے ہیں کب پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کا فیصلہ ہوگا، پوری قوم کی طرح مجھے بھی یقین ہے جلد فیصلہ ہوگا، سینئر ترین جج کی حیثیت سے سمت کو درست رکھنا میرا فریضہ ہے۔