تازہ ترین

فوجی عدالتوں کیخلاف کیس سننے والا سات رکنی بینچ پھر ٹوٹ گیا

فوجی عدالتوں کیخلاف کیس سننے والا سات رکنی بینچ پھر ٹوٹ گیا

اسلام آباد: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف کیس میں وفاقی حکومت نے بینچ پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد کیس سننے والا سات رکنی بینچ پھر ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے قریبی عزیز اس مقدمہ میں درخواست گزار ہے، وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں کہ جسٹس منصور علی شاہ یہ مقدمہ نہ سنے۔ دوران سماعت، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے پہلی سماعت پر پوچھا تھا کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں، اب بینچ پر اعتراض کس کی طرف سے اٹھایا گیا ہے۔ کوڈ آف کنڈیکٹ کا آرٹیکل 4 بڑا واضع ہے، کیا اعتراض ہے کھل کر بتائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں بینچ سے خود کو الگ کرتا ہوں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے پہلے بھی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، عدالت کے فیصلوں پر عمل اخلاقی ذمہ داری ہے اور ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں البتہ بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن انکی اخلاقی اتھارٹی کیا ہے۔ لوگ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، بینچ میں شامل رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ جج صاحب خود کریں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال سے اعتراض کے بعد میں میرا اس بینچ میں شامل رہنا نہیں بنتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس سب پر ہم وزیراعظم سے پوچھیں؟ اگر ایسے الزامات حکومت لگائے گی تو کیا ہوگا، عدالت کو بدنام مت کریں، آپ بینچ کے ایک جج پر جانبداری کا الزام لگا رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں کبھی اس بینچ میں نہیں بیٹھا جب مجھ پر جانبداری کا شبہ بھی ہو۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ جج صاحب پر جانبداری کا کہہ رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراو کا؟ آپ کس بنیاد پر اعتراض کر رہے ہیں، آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ اچھے کردار اور اقدار کے حامل وکیل ہیں، ہماری حکومت ہمیشہ بینچز کی تشکیل پر بات کرتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے بینچ درست نہیں بنایا گیا، آپ ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتے ہیں، آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، ہم سمجھتے ہیں یہ وقت ایک قدم پیچھے ہٹنے کا ہے۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سماعت پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ان کا درخواست گزار جواد ایس خواجہ سے قریبی تعلق ہے اس لیے جسٹس منصور علی شاہ بینچ میں بیٹھنے پر نظرثانی کریں، میرا ابھی بھی وہی مقف ہے جو گزشتہ سماعت پر تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس نے کہا ہے اس کا نام لیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے وفاقی حکومت کی ہدایات ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے اسی لیے آپ سے پہلے پوچھا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے وفاقی حکومت نے جو کہا ہے وہ بتا رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ جانبداری کی وجہ سے اعتراض اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکرا کی وجہ سے؟ اگر جج کسی رشتہ دار کو کوئی فائدہ دے تو یہ اعتراض بنتا ہے، آپ ایک اچھے وکیل ہیں اور ہم آپ کا احترام کرتے ہیں، آپ جو اعتراض اٹھا رہے ہیں یہ اعتراضات کے تسلسل کا حصہ ہے ادھر ہمارے سامنے ایک آئینی معاملہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے