صحت

مستقل اندھے پن سے بچانے والے نئے ڈراپس کی آزمائش

مستقل اندھے پن سے بچانے والے نئے ڈراپس کی آزمائش

پیرس: سائنس دانوں نے امبلیکل کورڈ میں پائی جانے والی ایک جیلی سے ایسے ڈراپس بنائے ہیں جو آنکھ میں تکلیف کا نیا علاج ہوسکتے ہیں۔ جیلی میں ایسے خلیے موجود ہیں جن کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ یہ زخم یا انفیکشن کے سبب آنکھ کی سطح کو پہنچنے والے نقصان کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‌اس ڈراپ کی مطبی آزمائش فرانس کے چھ اسپتالوں میں جاری ہے جہاں یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا یہ ڈراپ قرنیہ پر آنے والی سوزش کو ٹھیک کر سکتے ہیں یا نہیں۔ آنکھوں میں یہ تکلیف طویل عرصے تک کانٹیکٹ لینس پہننے کی وجہ سے ہونے والے انفیکشن کے سبب ہوسکتی ہے۔ اگرچہ اس تکلیف میں نسبتاً کم لوگ مبتلا ہوتے ہیں لیکن یہ قرنیہ کی سطح کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور دنوں میں مستقل طور پر بینائی سے محروم کر سکتی ہے۔‌اس تکلیف کا علاج عموماً اینٹی بائیوٹک ڈراپس سے بیکٹیریا مار کر کیا جاتا ہے۔ کچھ اسپیشلسٹ سینٹرز پر اس تکلیف کا علاج مریض کے خون کے نمونے سے بنائے گئے آنکھوں کے قطروں سے کیا جاتا ہے۔‌جیلی ڈراپس کی تازہ ترین آزمائش کی پشت پر موجود محققین پُر امید ہیں کہ یہ ڈراپس باآسانی اور وسیع مقدار میں بنائے جا سکیں گے جو مریضوں کو ان کے خون کے نمونے دینے سے چھٹکارہ دلائیں گے۔‌وارٹنز جیلی نامی یہ مادہ بڑی مقدار میں امبلیکل کورڈ میں پایا جاتا ہے جس کو عام طور پر بچہ پیدا ہونے کے بعد پھینک دیا جاتا ہے۔‌حالیہ سالوں میں سائنس دانوں کو یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ اسٹیم خلیوں کا ایک ذرخیز وسیلہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے