اسلام آباد: وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ میں اضافہ کے باعث ملکی قرضوں اور بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہو رہا ہے۔100 بیسز پوائنٹ بڑھنے سے قرضوں میں 6 سو ارب روپے اضافہ ہوا اور تقریباً7 سو ارب روپے کی کرنسی کی گردش میں کمی ہوئی ہے۔اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ بڑھا کر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں علاوہ ازیں سولر پینل کی درآمدات کی مد میں کمپنیوں کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے اورسات کمپنیوں کی جانب سے پانچ سالوں میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کئے جانے کا بھی انکشاف ہوا۔یہ انکشافات بدھ کو سینٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی زیر صدارت ہونے والیسینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں کئے گئے۔ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خزانہ نے بتایا کہ پالیسی ریٹ میں اضافہ کے باعث ملکی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ بڑھنے سے بینک ڈپازٹس میں اضافہ ہوا ہے اور تقریباً7 سو ارب روپے کی کرنسی سرکولیشن میں کمی ہوئی ، لوگوں نے کرنسی بینک اکاوٴنٹس میں منافع حاصل کرنے کیلئے ڈپازٹ کرائی،چیئرمین خزانہ کمیٹی نے کہا کہ پالیسی ریٹ بڑھنے سے 26 ٹریلین روپے بینک اکاوٴنٹس میں ڈپازٹ کرائے،جس پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ پالیسی ریٹ بڑھا کر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔سینٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ سیاسی افراد کو اکاوٴنٹ کھلوانے میں مشکلات ختم کریں جس پر ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ ہر بینک میں ایک فوکل پرسن ہے اس معاملے کو حل کرنے کیلئے سیاسی افراد کو کسی بھی مشکل میں بینک کے فوکل پرسن سے رابطہ کرنا چاہیے جس پر کمیٹی کی رکن سینٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ اگر ایک آدمی ٹیکس دہندہ ہے تو اس کا بینک اکاوٴنٹ ہر صورت کھلنا چاہیے۔ برطانیہ میں اس طرح کہ ایک کیس میں بینک کے سی ای او کو فارغ کر دیاسینٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک کو ایسی کسی شکایت پر متعلقہ بینک کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے یہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین اور قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہےکامل علی آغا نے کہا کہ جو بندہ بینک اکاوٴنٹ کھلوا رہا ہے وہ تو رقم کو دستاویزی بنا رہا ہے اب بینک اتنے منافع بخش ہو گئے ہیں کہ انکو کسی کی پروا نہیں ہے پہلے تو بینک کیش لینے بندہ گھر بھی بھیج دیا کرتے تھےسلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بینکوں کو اب حکومت کی شکل میں بہترین صارف مل گیا ہے ، کاروبار تو اتنے زیادہ شرح سود پر چل ہی نہیں سکتے ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہےوزارت خزانہ حکام نے کہا کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافہ سے قرض کے حجم میں 600 ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہےڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے شرح سود بڑھانا پڑیکامل علی آغا نے جواب میں کہا کہ شرح سود میں اضافے سے گندم دالیں سبزیاں اور گھی کم از کم 30 فیصد مہنگے ہوئےذیشان خانزادہ نے کہا کہ بینکوں کے ڈیپازٹ میں بہت اضافہ ہوا ہے مگر صارف کو کوئی فائدہ نہیں ہے کاروباری لوگوں کیلئے پرانے قرض پر سود ادا کرنا مشکل ہو گیا۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مرکزی بینک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے پالیسی ریٹ کے علاوٴہ کوئی اور ٹول نہیں ہے مہنگائی میں کمی آئی تو پالیسی ریٹ میں کمی ہو گی پالیسی ریٹ بڑھنے سے کاروباری اداروں کے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے تاہم ابھی تک ایسی صورت حال نہیں ہے، اس سال مئی میں افراط زر 38 فیصد تھی جو 11 فیصد کم ہو کر اگست میں 27 فیصد پر آ گئیچیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایک سال میں بینکوں کے ڈیپازٹ میں 26 کھرب روپے کا اضافہ ہوا ہے : یہ ساری رقم مارکیٹ میں لگنا تھی اسٹیٹ بینک یہ رپورٹ دے کہ جب شرح سود 7 فیصد تھی تو غذائی اشیاء کی کیا قیمت تھی اور 22 فیصد پر کیا ہے شرح سود بڑھنے سے کارخانے بند ہوئے ہیں اسٹیٹ بینک انکو دوبارہ چلانے کیلئے اقدامات کرے آئی ایم ایف کو اس چیز کا احساس دلانے کیلئے بات چیت کی جائےممبر کسٹمز پالیسی نے بتایا کہ سولر پینل کی درآمد پر 21 بینکوں سے تفصیلات مانگی ہیں ایک امپورٹر نے 14 ارب روپے اور دوسرے نے 11 ارب روپے کیش بینکوں میں جمع کروائے اگر بینک پہلے ریڈ فلیگ لہرا دیتے تو اس کو پہلے روک لیتے سات کمپنیوں نے پانچ سالوں میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا کہ جب اسٹیٹ بینک نے درآمد کی اجازت دینا شروع کی تو اس میں یہ مشکوک درآمدات نظر آئیں یہ تجارتی منی لانڈرنگ تھی بینکوں نے انکے خلاف 37 دفعہ مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ جاری کی اگر 20 لاکھ سے زیادہ کیش رقم جمع کروائی جائے تو بینک اس کو ایف ایم یو کو رپورٹ کرتا ہے ان درآمدات کے ذریعے رقم باہر بھجوائی جا رہی تھیںڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ سولر کی درآمدات زیرو ریٹیڈ تھیں اسکو انھوں نے رقم باہر بھجوانے کیلئے استعمال کیاجس پر سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ کسٹمز والے تمام چیزیں دیکھتے ہیں یہ مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا یہ بہت الرامنگ بات ہے اس کا نوٹس لیا جانا اور ذمہ داروں کے تعین کیلئے تحقیقات ہونا چاہیےجس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ کسٹمز کا مال پورٹ پر کلیئر ہوتی ہے اگر پورٹ پر دیکھتا جاتا تو یہ کام رک سکتا تھا اب تحقیقات سے ہی پتہ چلے گا کہ یہ کام کیسے ہوا ایف ایم یو کی طرف سے مشکوک ٹرانزیکشن کی رپورٹ ملتی ہیں۔