پاکستان تازہ ترین

آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں، قاضی فائز عیسیٰ

آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں، قاضی فائز عیسیٰ

اسلام آباد: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین اور قانون چیف جسٹس کی خواہشات کے تابع نہیں ہیں اگر ایسا ہوا تو یہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے تباہ کن ہوگا، ہم ماسٹرز نہیں بلکہ آئین اور عوام کے نوکر ہیں، چیف جسٹس کو آئین و قانون سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔‌یہ بات انہوں ںے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں کہی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت، سپریم کورٹ میں پریکٹس پروسیجر کیس میں اضافی دستاویز جمع کرائی گئیں۔‌اضافی دستاویز میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی پارلیمنٹ کارروائی کا ریکارڈ جمع کرایا گیا۔ درخواست گزار امیر خان کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے جمع کرایا۔ متفرق درخواست میں سپریم کورٹ سے اضافی دستاویز کو منظور کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔‌سپریم کورٹ میں جمیعت علمائے اسلام ف نے بھی تحریری جواب جمع کر رکھا ہے جس میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں، عدالتی فیصلوں کے مطابق مذکورہ ایکٹ آئینی اور قانون سے متصادم نہیں ہے، پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جو قانون بنا سکتا ہے یا اس میں ترمیم کرسکتا ہے۔‌جے یو آئی نے جواب میں موقف اپنایا کہ درخواست گزاروں کا یہ موقف بے بنیاد ہے کہ مذکورہ قانون آرٹیکل 184(3) کے متصادم ہے، مذکورہ قانون سے عدالت عظمیٰ کو حاصل اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، آئین پاکستان اختیارات کسی ایک فرد کو تفویض نہیں کرتا۔‌صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر الگ قانون سازی اختیارات سے تجاوز ہوگا، آئین پارلیمنٹ کو اس معاملے پر قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نئی قانون سازی نہیں ہوسکتی؟ آپ کے مطابق سپریم کورٹ پہلے سے موجود قانون کے مطابق رولز بنا سکتی ہے۔‌ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم سبجیکٹ ٹو لا کا لفظ کاٹ دیں فرق کیا پڑے گا؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ فرق نہیں پڑے گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فرق نہیں پڑے گا نا، تھینک یو، اگلے پوائنٹ پر چلیں۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئینی اختیارات سے سپریم کورٹ رولز بنا لے تو بعد میں کوئی قانون سازی بدل سکتی ہے؟ عابد زبیری نے کہا کہ ان کے پاس اختیار نہیں رہ جاتا قانون سازی کرنے کا۔‌چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ سمجھ کر دلائل دے رہے ہیں کہ نہ ختم ہونے والا کیس ہے تو ایسا نہیں ہے، فل کورٹ کی کارروائی کے باعث باقی مقدمات نہیں سن پا رہے، فل کورٹ کی کارروائی کے باعث زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ آج اس سماعت کا آخری دن ہے۔‌چیف جسٹس نے دوران سماعت اضافی کاغذات جمع کرانے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کہا تھا یہ پہلے دائر کر دینا اب کاغذ آرہے ہیں، کیا ایسے نظام عدل چلے گا کیا دنیا میں ایسے ہوتا ہے؟ مغرب کی مثالیں آپ دیتے ہیں کیا وہاں یہ ہوتا ہے؟ آپ جیسے سینیئر وکیل سے ایسی توقع نہیں ہوتی، ہمارا لیول اتنا تو کم نہ کریں، پہلے بھی کہا تھا اگر کچھ جمع کروانا ہے تو سماعت سے پہلے دے دیں، یہ درست طریقہ کار نہیں ہے، کیا عدالتی نظام ایسے چلے گا؟ کس دنیا میں ایسا ہوتا ہے؟ مغرب کی مثالیں تو سب دیتے ہیں ، مغرب میں نظام عدل ایسے چلتا ہے؟‌وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نا گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو یہاں نظیر کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔‌جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔‌چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے کہ آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے کہ آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔‌‌وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت میں کہا گیا کہ قانون سازی کرنے اور رولز بنانے میں فرق ہے۔‌جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 175 ٹو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 ٹو کسی بھی عدالت کے مقدمات کو سننے کا اختیار بتایا گیا ہے۔‌وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز سے متعلق آرٹیکل 142 اے اور اینٹری 55 کو ملا کر پڑھنا ہوگا، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔‌چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تا کہ وکلاء سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔‌جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں نے مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح طور پر لکھ دیتے، اگر کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہوگا تو وہ خود ہی کالعدم ہو جائے گا۔ رولز کبھی ایکٹ سے اوپر نہیں ہوتے۔‌صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے کہا کہ رولز آئین کے بر خلاف نہیں بن سکتے۔‌جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی قانون اور رولز بنانے کے اختیارات پر فیصلہ دیا ہے، ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ رولز بنانا ہائیکورٹ کا اختیار ہے اور پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی نہ ہی رولز بنانے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے، موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں ردو بدل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے