پاکستان

پی آئی اے پرائیویٹائزیشن جلد، اسٹیل ملز، پاور کمپنیوں کی نجکاری موخر

پی آئی اے پرائیویٹائزیشن جلد، اسٹیل ملز، پاور کمپنیوں کی نجکاری موخر

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پی آئی اے کو پرائیویٹائزکرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایئرلائن کو فروخت کرنے سے پہلے اسے قرضہ سے پاک کیا جائے گا، اس کے ذمے واجبات ایک ہولڈنگ کمپنی کے سپرد کیے جائیں گے جبکہ اسٹیل ملز اور پاور کمپنیوں کی نجکاری موخر کردی گئی ہے۔‌وفاقی وزیرنجکاری فواد حسن فواد نے منگل کو وفاقی وزیراطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کے معاملات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ اب کوئی بینک وفاقی حکومت کی ضمانت پر بھی اسے قرضہ دینے کو تیار نہیں۔ایئرلائن کا ماہانہ خسارہ12.70ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔‌پی آئی اے کے جواثائے فروخت کیے جائیں گے ان میں اس کے جہاز، اس کے روٹس، لینڈنگ رائٹس، کورانجینئرنگ اور ایئرسروس ایگریمنٹس شامل ہیں۔‌انہوں نے بتایا کہ اس وقت پی آئی اے کے پاس34 جہاز ہیں جن میں سے 19 پرواز کے قابل جبکہ15گراؤنڈ ہوچکے ہیں،ان میں سے بھی 6 لیز پر ہیں جن کا 20 لاکھ ڈالر ماہانہ کرایہ ادا کیا جارہا ہے۔‌وفاقی وزیرکا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا بنیادی مقصد ملک میں ہوا بازی کی صنعت کو فروغ دینا ہے، پاکستان ہوا بازی کا علاقائی مرکز بننے کی مکمل استطاعت کا حامل ملک ہے۔ انہوں نے کہا پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کی کوئی ڈیڈلائن نہیں ہے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ یہ کام جس قدر جلد ممکن ہوسکے کریں۔‌ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیرنے کہا پرائیویٹائزیشن خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا مینڈیٹ نہیں ہے البتہ انہوں نے کونسل کو پی آئی اے کی خراب صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور سالہاسال کی مس مینجمنٹ سے پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں بریف کیا ہے۔‌انہوں نے کہا کہ2012ء سے لے کر اب تک پی آئی اے 7.1 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہے ۔اس رقم سے دیامربھاشا ڈیم بن سکتا تھا یا انٹرنشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد جیسی سرکاری شعبے میں 10یونیورسٹیاں بن سکتی تھیں۔‌انہوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز اور پاورڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی پرائیویٹائزیشن کے معاملات پیچیدہ ہونے کی وجہ سے ان کی فروخت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوسکا،ان کے معاملات بعد میں دیکھیں گے۔ پاکستان اسٹیل ملز کے معاملات وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے جائیں گے اس کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومت ریگولیٹری کنٹرول کے ذریعے عوامی مفاد کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔‌فواد حسن فواد نے کہا کہ ہمارے پاس ایک ہی چوائس ہے کہ یا تو خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری کردیں یا انہیں مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بند کردیں۔لیکن ان کے بقول وہ کوشش کریں گے کہ پی آئی اے چلتی رہے۔ پی آئی اے کا مجموعی خسارہ اس وقت 713ارب روپے تک پہنچ چکا ہے،اس میں285 ارب روپے قرضے ہیں جن کی گارنٹی وفاقی حکومت نے دے رکھی ہے۔پی آئی اے کے ذیلی اداروں نے جو قرضے لے رکھے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔‌انہوں نے کہا کہ حکومت نجکاری کرتے وقت جلد بازی میں قانونی قواعد کو نظرانداز نہیں کرے گی تاہم حکومت کو اگراس کام میں جلد ی ہے تو اس کی وجہ ملک کی خراب معاشی صورتحال ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لئے مالیاتی مشیر کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں، مالیاتی مشیر کی رپورٹ کی روشنی میں نجکاری کمیشن پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں حکومت کو حتمی سفارشات دے گا۔‌ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کی انتظامیہ یورپ کے لئے پروازیں جلد از جلد شروع کرنے کی کوشش کر ر ہی ہے ، ہمیں بتایا گیا ہے کہ دسمبر یا جنوری میں یورپی ریگولیٹرز پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، ہماری کوشش ہوگی کہ یورپی مقامات کے لئے پی آئی اے کی پروازیں جلد شروع ہوں۔‌انہوں نے کہا پی آئی اے کی نجکاری کی صورت میں ملازمین کو مظاہروں کی ضرورت نہیں ہو گی، بیشتر ملازمین کی ملازمتیں بحال رہیں گی۔ اس حوالے سے انسانی وسائل کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔‌فواد حسن فواد نے کہا کہ ہمارے پائلٹس اعلیٰ مہارت کے حامل ہیں اور مشکل علاقوں میں لینڈنگ اور ٹیک آف کر سکتے ہیں، اسی طرح ہمارے انجینئرز اور معاون عملہ بھی بین الاقوامی معیار کے مطابق ہے۔‌وفاقی وزیرنے کہا نجکاری کا عمل عوامی مفاد کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے شفاف انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں، 2020 ء میں سرکاری کاروباری اداروں کا خسارہ مجموعی قومی پیداوار کے 7 فیصد کے برابر تھا۔ 15 بڑے اداروں کا خسارہ 2 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہے، حکومت نے سرکاری کاروباری اداروں کو 2018 سے لے کر 2022 ء تک 2542 ارب روپے فراہم کئے ہیں، 2018میں 414 ارب روپے، 2019 میں 612 ارب روپے، 2020میں 719ارب روپے اور 2021میں 757ارب روپے فراہم کئے گئے۔ یہ وسائل سماجی شعبے کی ترقی اور ایم ایل ون و بھاشا ڈیم جیسے قومی ترقی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے پر خرچ ہو سکتے تھے جس سے ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی۔‌انہوں نے کہا ہماری پوری کوشش ہے کہ نجکاری کے حوالے سے مشکلات کو کم سے کم کیا جائے گا۔معیشت کی بہتری کیلئے جتنا کام کرنا چاہئے تھا اتنا نہیں ہو سکا، 1994ء میں شروع ہونے والی نجکاری کے کچھ معاملات آج بھی عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ نجکاری کمیشن میں اس وقت بڑے عہدے خالی ہیں جہاں اہل افراد کو لائیں گے۔ نجکاری والے ادارے پاکستان کے عوام کے اثاثے ہیں، دنیا کی بدلتی ہوئی معیشت میں مقابلہ کے لئے ان اداروں کی نجکاری کی ضرورت پیش آئی۔ نجکاری اس لئے نہیں ہوتی کہ کسی کی خواہش ہے۔‌انہوں نے کہا کہ نگران حکومت وہی کام کر رہی ہے جو اسے منتخب حکومتیں سونپ کر گئی ہیں، اس سے زیادہ کوئی کام نگران حکومت کے مینڈیٹ میں نہیں اور نہ ہی ہمارا کوئی ایسا کام کرنے کا ارادہ ہے۔‌ماہرین کے مطابق 10 ملین ٹن کی پیداوار کے لئے 300 ایکڑ اراضی پر سٹیل ملز لگائی جا سکتی ہے، پاکستان سٹیل ملز کی معاشی طور پر بحالی ممکن نہیں ہے، یہ معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے لے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا چین کی طرف سے سٹیل ملز کے حوالے سے گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ کی تجویز ہمیں نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ ہاؤس بلڈنگ، سٹیٹ لائف، فرسٹ وومن بینک اور دیگر اداروں کی نجکاری کا عمل بھی شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے