پاکستان

نیب ترامیم کیس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

نیب ترامیم کیس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے بانی ٹی آئی کی درخواست پر نیب ترامیم کیس کی سماعت کی اور دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔‌تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کی جس میں عمران خان اڈیالہ جیل سے بذریعہ ویڈیو لنک پیش ہوئے۔‌پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک بھی عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اپنے دلائل دیے۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا جبکہ چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکم نامہ لکھوایا۔‌تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس نے لکھوایا کہ کوئی بھی فریق تحریری جواب جمع کرانا چاہے تو کروا دے، وہ مقدمہ تو ثالثی کے معاملے پر سپریم کورٹ آیا تھا، جواب میں لکھا کہ نیب نے پیسے اپنے پاس ہی رکھے ہیں، آپ ایک روپیہ بھی اپنے پاس کیسے رکھ سکتے ہیں،‌پراسیکیوٹر جنرل نیب کو کہیں خودپیش ہوں۔‌فاروق ایچ نائیک نے چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی دورمیں کوئی نیب کیس نہیں بنا، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی کی بات ہمارے سامنے نہ کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت کیسے متاثر ہیں۔‌چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نیب کی بجٹ رپورٹ کہاں ہے؟ انہوں نے بانی پی ٹی آئی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں؟۔‌عدالت نے تحریری حکم نامے میں نیب سے دس سالہ بجٹ کا ریکارڈ طلب کر لیا جبکہ قومی احتساب بیورو کے وکیل کی جانب سے جمع کرایا گیا جواب مسترد کردیا۔ تحریری حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ کوئی بھی فریق سات دنوں میں جواب داخل کروانا چاہے تو کرواسکتا ہے۔‌سماعت کا آغاز ہوا تو عدالتی معاون وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔‌جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈر پر نیب کا اختیار کیوں رکھا گیا، غیر منتخب پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟ غیر منتخب افراد کو نیب قانون سے باہر رکھنا امتیازی سلوک ہے، منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے کوئی ایک مثال بتائیں، کرپشن منتخب نمائندے نہیں بلکہ پرنسپل اکاونٹنگ افسر کرتا ہے۔‌‌جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کوئی منتخب نمائندہ یا وزیر متعلقہ سیکرٹری کی سمری کے بغیر کوئی منظوری نہیں دیتا، کیا کوئی سیکرٹری سمری میں لکھ دے کہ یہ چیز رولز کے خلاف ہے تو وزیر منظوری دے سکتا ہے؟ اعلی حکام میں انکار کرنے کی جرات ہونی چاہیے۔‌چیف جسٹس نے وکیل بانی پی ٹی آئی سے پوچھا کیا آپ سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں جیسا قانون پہلے تھا وہی برقرار رہے۔‌وکیل بانی پی ٹی آئی خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نیب ترامیم مخصوص افراد کے فائدے کیلئے تھیں، کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔‌چیف جسٹس نے کہا کہ وہی جماعت جس نے سپریم کورٹ میں قانون چیلنج کیا اسی نے ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا، شعیب شاہین نے قانون چیلنج کیا، حامد خان صاحب ان کے وکیل تھے، ہائیکورٹ نے تو نوٹس بھی جاری کرلیا تھا، ہائیکورٹ جانا پھر سپریم کورٹ آنا، کیا اپنی مرضی سے خریداری کرنا مقصد تھا، نیب ترامیم اتنی خطرناک تھیں تو انہیں معطل کردیتے، 53 سماعتوں تک ترامیم زندہ رہیں۔‌جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون کو معطل نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کے قانون کو معطل کرنا پارلیمنٹ کی توہین ہے۔‌‌چیف جسٹس نے کہا کہ جب صاحب نے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا انہوں نے سپریم کورٹ کو کیوں نہیں بتایا، تنقید کرنا بڑا آسان ہوتا ہے، ٹی وی پر بیٹھ کر شعیب شاہین باتیں کرتے ہیں ہمارے سامنے پیش ہوکر جواب دیں، باہر جاکر کیمرے پر گالیاں دیتے ہیں، گالیاں دینا تو آسان کام ہے، اگر میں نے غلطی کی تو مجھ پر انگلی اٹھائیں، باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں، سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا، اصولی مؤقف میں سیاست نہیں ہونی چاہیے۔‌جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ حارث سے کہا کہ ایک اثاثوں کے کیس میں ہی سپریم کورٹ نے مانیٹرنگ جج لگایا، پھر اس کیس میں آپ ملزم کے وکیل اور میں جج تھا ، سپریم کورٹ کے جج مانیٹرنگ جج تھے، اس کیس میں ایک پاور فل جے آئی ٹی بھی بنی جس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے طاقتور ادارے بھی تھے، بتائیں اس کیس کا کیا بنا، اس کیس میں آپ وکیل تھے؟‌خواجہ حارث نے جواب دیا کہ طاقتور اداروں کی جے آئی ٹی میں شمولیت کے باوجود بھی کچھ ثابت نا ہوسکا۔‌چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بانی پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا کہ اگر آپ اتنے ہی ایماندار تھے تو ایمنسٹی کیوں دی، برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے بتائیں وہاں کیوں ایمنسٹی نہیں دی جاتی، ممکن ہے نیب ترامیم کا آپ کے مؤکل کو فائدہ ہو، خواجہ صاحب آپ کا ریکارڈ ہے، کیس 53 سماعتوں میں سنا گیا۔‌جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب قانون سے آج آپ کے فریق بھی متاثرہ ہیں، اگر نیب کا پرانا قانون ہوتا تو آج آپ کے مؤکل بھی شدید مشکل میں ہوتے۔‌‌خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میرے مؤکل کو فائدہ ہوا اس میں کوئی دو رائے نہیں پھر بھی ہم سپریم کورٹ آئے۔‌چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک، آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آئینی کیا تھا؟‌جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ بلکہ ترامیم کے ذریعے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے، آپ کیوں چاہتے ہیں ہر معاملے پر کارروائی نیب ہی کرے ، اس پر اتنا اعتبار کیوں؟ پارلیمنٹ نے اثاثوں کی سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا ہے، وہ چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی۔‌خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نیب قانون اور اسے چلانے والوں میں فرق ہے، مجھے نیب پر اعتماد نہیں، میں تو قانون کی بات کررہا ہوں۔‌جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے عدالتی فیصلے کے ذریعے پارلیمنٹ کے قانون میں ترمیم کی، ایک شخص آیا اس نے آئین کو روند کر نیب قانون بنادیا، میری خواہش ہے اگر مارشل لاء نا لگتا تو نیب قانون ہی نا ہوتا، اراکین پارلیمنٹ نیب سے جان چھڑانا چاہتے تھے، کیا ہم پارلیمنٹ کے قانون کو عدالتی فیصلے کے ذریعے ترمیم کرسکتے ہیں، کل پارلیمنٹ دوبارہ قانون بنالی تو کیا ہوگا؟‌چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو مانیٹر نہیں کرسکتی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام سپریم ہے اس لئے پارلیمنٹ سپریم ہے۔‌خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ عوام کی امین ہے۔ چیف جسٹس نے تو پھر کیا پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا درست تھا؟‌خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا سیاسی فیصلہ تھا جو درست نہیں۔‌‌خواجہ حارث نے دلائل مکمل کیے جس پر عدالت نے سماعت میں مختصر وقفہ کردیا۔ وقفے کے بانی پی ٹی آئی خود دلائل دیں گے۔‌‌سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے سماعت میں وقفہ کیا اور پھر دوبارہ سے سماعت شروع کی۔‌دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو بانی پی ٹی آئی ویڈیولنک پر عدالت میں حاضر ہوئے جس پر چیف جسٹس نے اُن سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں، یہ سنتے ہی عمران خان نے بولنا شروع کیا اور کہا کہ میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔‌میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں، کیا آپ بتا سکتے ہیں کب پوائنٹ اسکورنگ کی؟‌انہوں نے چیف جسٹس سے مخاطب ہوکر پوچھا کہ ’کیا آپ بتا سکتے ہیں میں نے پوائنٹ اسکورنگ کی، آپ کے بیان سے لگتا ہے میں غیر ذمہ دار شخص ہوں کوئی غلط بات کردوں گا، میں ایسا کوئی خطرناک آدمی نہیں ہوں‘۔‌اس پر چیف جسٹس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اُس درخواست پر فیصلہ ہوچکا ہے اور ججز اپنے فیصلوں کی خود وضاحت نہیں کرتے، لہذا آپ صرف کیس پر رہیں اور بات کریں‘۔‌جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ خان صاحب آپ کو غیر ضروری ریلیف ملا ہے لہذا آپ صرف کیس پر بات کریں۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے چئیرمین اور ممبران کا معاملہ ہائیکورٹ میں آیا تھا اور اس الیکشن کمشنر آپ نے خود لگایا تھا، 76 سالوں میں پارلیمنٹ کو نیچا دکھایا گیا۔‌عمران خان نے کہا کہ نیب کے اختیارات کم ہوں تو میرے لئے اچھا ہوگا، لوگوں کے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ممالک ہیں ان کا کیا ہوگا؟‌‌اس بات پر جسٹس مندو خیل نے کہا کہ خان صاحب آپ جو باتیں کررہے ہیں مجھے خوفزدہ کررہی ہیں، حالات اتنے خطرناک ہیں تو اپنے ساتھی سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کریں، جب آگ لگی ہوتو یہ نہیں دیکھتے کہ پانی پاک ہے یا ناپاک، پہلے آپ آگ کو بجھائیں، اپنے گروپ کو لیڈ کریں، آپ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں ہم آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں، خدانخواستہ اس ملک کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار ہم نہیں سیاستدان ہوں گے۔‌عمران خان نے کہا کہ اس وقت ملک معاشی بحران کا شکار ہے، باہر سے ترسیلات زر آتی ہیں جبکہ اشرافیہ اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیجتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دو چیزوں کو مکس کررہے ہیں۔‌‌جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھتے ہیں آپ کا اس وقت جیل میں ہونا بدقسمتی ہے کیونکہ آپ ایک بڑی جماعت کے سربراہ ہیں آپ کے لاکھوں پیروکار ہیں۔ بانی پی ٹی آئی نے بولا کہ ہمارے ساتھ تو ظلم ہورہا ہے، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لاء لگا ہوا ہے اور میری آخری امید سپریم کورٹ ہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے