دنیا

جرمنی میں اسلامک سینٹر پر ایران سے تعلق کے الزام میں پابندی عائد

جرمنی میں اسلامک سینٹر پر ایران سے تعلق کے الزام میں پابندی عائد

ہیمبرگ: جرمنی کی وزارت داخلہ نے اسلامک سینٹر ہیمبرگ اور اس کی ذیلی تنظیموں پر ایران سے روابط اور اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے کام کرنے کے الزام میں پابندی عائد کردی۔‌غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جرمن وزارت داخلہ نے بیان میں کہا کہ اسلامک سینٹر ہیمبرگ نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے براہ راست نمائندے کے طور پر اور جرمنی میں اسلامی انقلاب برپا کرکے نظریاتی حکومت بنانے کے لیے کام کیا۔‌جرمنی میں قائم اسلامک سینٹر ہیمبرگ کی جانب سے بھی اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا اور اس کی ویب سائٹ تک عوامی رسائی ممکن نہیں ہے۔‌وزارت داخلہ نے کہا کہ عدالت کے احکامات کی روشی میں تفتیش کاروں کی جانب سے جرمنی کی 8 ریاستوں میں واقع اسلامک سینٹر کے 53 مقامات کی تلاشی لی گئی ہے۔‌بیان میں کہا گیا کہ اسلامک سینٹر ہیمبرنگ کے فرینکفرٹ، میونخ اور برلن میں واقع ذیلی مراکز پر بھی پابندی عائد کردی گئی اور ان کے ساتھ ساتھ 4 مساجد بھی بند کردی گئی ہیں۔‌ہیمبرگ میں قائم اسلامک سینٹر اپنی طرز تعمیر کی وجہ سے مشہور ہے اور جرمنی میں قائم ہونے والی پرانی مسجدوں میں سے ایک ہے۔‌جرمن وزارت داخلہ نے کہا کہ بدھ کو عائد کی گئی پابندی کی بنیاد نومبر میں اسلامک سینٹر کی 55 جائیدادوں کی تلاشی کے دوران حاصل کیے گئے شواہد ہیں۔‌بیان میں مزید کہا گیا کہ اسلامک سینٹر ہیمبرگ سے ایرانی حمایت یافتہ لبنانی تنظیم حزب اللہ کی حمایت کی جاتی تھی، جس پر جرمنی میں پابندی عائد ہے اور یورپی یونین نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔‌وزیرداخلہ نینسی فائیسر نے کہا کہ آج ہم نے اسلامک زینٹرم ہیمبرگ پر پابندی عائد کردی ہے جو جرمنی میں اسلامی انتہاپسندی اور مطلق العنانیت کے نظریات کی پرچار کر رہا ہے۔‌انہوں نے کہا کہ یہ نظریات انسانی عزت، خواتین کے حقوق، آزاد عدلیہ اور ہماری جمہوری حکومت کے خلاف ہیں۔‌جرمن وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ وہ واضح کرنا چاہتی ہیں کہ اس پابندی کا اطلاق شیعہ مذہب کی پرامن مذہبی عبادات کی ادائیگی پر نہیں ہوگا۔‌ادھر ایران کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ اس نے تہران میں تعینات جرمنی کے سفیر کو طلب کرکے اسلامک سینٹر پر پابندی کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔‌سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں ایرانی وزارت خارجہ نے اسلام، عیسائیت اور یہودی مذاہب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے جرمنی میں جو کچھ ہوا وہ اسلاموفوبیا ہے اور ابراہیمی عقائد کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔‌ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ پابندی آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے اور اس سے کشیدگی اور انتہاپسندی کو فروغ ملے گا۔‌دوسری جانب سفیر کی وزارت خارجہ طلبی سے متعلق جرمن وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ یہ ایران کا کام ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات بہتر بنانے کے لیے بنیادی اقدامات کرے کیونکہ تعلقات حالیہ برسوں میں تنزلی کا شکار ہیں۔‌واضح رہے کہ جرمنی میں اسلام کے حوالے سے 2020 کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جرمنی کی 8 کروڑ 30 لاکھ آبادی کا 5.5 فیصد مسلمان ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے