جوہانس برگ: جنوبی افریقہ کے سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی شخص کورونا وائرس (سارس کوو 2) کے اومیکرون ویریئنٹ سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوجائے تو ڈیلٹا ویریئنٹ بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ’ایفریکا ہیلتھ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ (AHRI) میں کی گئی یہ تحقیق اب تک کسی ریسرچ جرنل میں شائع نہیں ہوئی ہے اور ادارے کی ویب سائٹ پر ایک پریس ریلیز کے طور پر موجود ہے۔ تاہم بیشتر وبائی ماہرین اس تحقیق کے درست قرار دے رہے ہیں۔
اس تحقیق میں 13 رضاکاروں سے خون کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں سے کچھ ویکسین شدہ اور کچھ لوگ غیر ویکسین شدہ تھے۔
یہ تمام رضاکار جنوبی افریقہ میں کورونا وبا کی تازہ لہر کے دوران اومیکرون ویریئنٹ سے متاثر ہوئے تھے۔ انفیکشن سامنے آتے ہی ان سے خون کے نمونے لیے گئے جبکہ 14 دن بعد دوسری مرتبہ ان سے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔
ان نمونوں کے تجزیئے سے معلوم ہوا کہ اومیکرون سے متاثرہ افراد میں بننے والی اینٹی باڈیز بہت آسانی سے ڈیلٹا ویریئنٹ کو بھی ناکارہ بنا رہی تھیں؛ لیکن ڈیلٹا ویریئنٹ سے متاثر ہو کر صحت یاب ہوجانے والوں پر اومیکرون کے حملے کامیاب ہورہے تھے۔ ڈیلٹا کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ پھیلنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ’اومیکرون ویریئنٹ‘ کی ہلاکت خیزی بہت کم ہے۔
یعنی یہ ویریئنٹ کم نقصان دہ ہونے کے علاوہ ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف بھی مؤثر تحفظ کا باعث بن سکتا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔ یہ نتائج اس لحاظ سے بھی قابلِ بھروسہ ہیں کیونکہ اومیکرون ویریئنٹ جن ملکوں میں بھی زیادہ پھیلا ہے، وہاں ڈیلٹا ویریئنٹ سے متاثرہ مریضوں کی تعداد اور اموات کی شرح میں بہت تیزی سے کمی آئی ہے۔
نومبر 2021 میں پہلی بار دریافت ہونے والا اومیکرون ویریئنٹ، دو ماہ سے بھی کم مدت میں دنیا کے 110 ممالک میں پھیل چکا ہے کیونکہ یہ ڈیلٹا ویریئنٹ سے 70 گنا تیز رفتاری سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے باوجود، بیماری کی شدت اور ہلاکت خیزی کے معاملے میں یہ ڈیلٹا ویریئنٹ سے بہت کم خطرناک بھی ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس تحقیق کا مقصد اومیکرون ویریئنٹ کو ’اچھا‘ ثابت کرنا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ کورونا وائرس کے اس نئے ویریئنٹ سے متاثر ہونے کا ایک مثبت پہلو بہرحال موجود ہے۔