کراچی: انٹر بینک میں ڈالر کی قدر میں 1.08 روپے کا اضافہ جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 30 پیسے کی کمی ہوئی ہے۔ انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے تمام دورانئیے کے دوران ڈالر کی قدر میں اضافے کا سلسلہ جاری رہا جس سے ایک موقع پر ڈالر کی قدر 1.08روپے کے اضافے سے 219.51روپے کی سطح پر بھی آئی۔ بعد ازاں ڈیمانڈ کم ہونے سے انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 46پیسے کے اضافے سے 218.89روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ کاروباری دورانیئے میں اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر30پیسے کی کمی کے بعد 225.70روپے کا ہوگیا۔ وزیرخزانہ کے دورہ امریکا اور آئی ایم ایف حکام سے ملاقات میں بظاہر قرض پروگرام سے متعلق ریلیف نہ ملنے اور ذرمبادلہ کے ذخائر تشویشناک سطح پر آنے جیسے عوامل کے باعث پیر کو بھی انٹربینک میں ڈالر کی محدود پرواز جاری رہی جبکہ اسکے برعکس اوپن مارکیٹ میں ڈالر تنزلی سے دوچار رہا۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ ملک کے لیے مطلوبہ ذرمبادلہ کا بندوبست نہ ہونے سے یومیہ بنیادوں پر درآمدی ادائیگیوں کے دبا سے ذرمبادلہ کا بحران بڑھنے سے روپیہ بتدریج کمزور ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کو یورو بانڈز تجارتی نوعیت کے بیرونی قرضوں اور سود کی مد میں ادائیگیاں ذرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف سے سیلاب تباہ کاریوں کے تناظر میں پاکستان کے لیے شرائط میں نرمی یا ریلیف نہ ملنے سے بھی روپے کے حوالے سے سینٹیمنٹ خراب ہوگیا ہے۔عالمی بینک سے بھی ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرض ملنے کا امکان ہے لیکن یہ فیصلہ 25اکتوبر کے اجلاس میں کیا جائے گا لہذا سرمایہ کار اس اجلاس کے منتظر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی سے سیاسی منظرنامہ بھی تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے، پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور اس حوالے سے حکومت کا سخت موقف معیشت اور روپیہ پر اثرانداز ہورہا ہے۔پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ روپے کے مقابلہ میں ڈالر کا دوبارہ مستحکم ہونا پریشان کن ہے،اسحاق ڈار کی آمد کے بعد روپے کی قدر میں اضافے سے عوام اوربہت سے کاروباری شعبوں نے سکھ کا سانس لیا تھا۔