کیلیفورنیا: بعض افراد زندگی میں تخلیقی فکر سے مالامال ہوتے ہیں اور کچھ افراد میں یہ صلاحیت کم ہوتی ہے۔ تاہم اب عام افراد بھی مشق کی بدولت اپنی تخلیقی فکر بڑھا سکتے ہیں۔ ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ تخلیقی عمل کسی کی میراث نہیں بلکہ اس کے لیے سوچ کے رخ کو بدلنے سے بھی وہی مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بالخصوص شدید جذباتی کیفیت میں مائنڈ سیٹ بدل کر تخلیقی امور انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کسی نفسیاتی یا جذباتی صورتحال کے شکار ہوں تو اسے مختلف انداز میں دیکھنے سے نئی راہیں پھوٹتی ہیں۔ یوں دھیرے دھیرے روایتی فکر سے ہٹ کر معاملات کو دیکھنے کی راہ نکلتی ہے۔ ماہرین نے اسے ایموشنل ری اپریزل کا نام دیا ہے۔ جرنل آف آرگنائزیشنل بہیویئر اینڈ ہیومن ڈسیشن پروسیسس میں شائع تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تخلیق عمل کی تربیت ہرشخص حاصل کرسکتا ہے۔ یعنی جب ہم اپنے موجودہ نقطہ نظر سے ہٹ کر سوچتے ہیں، یعنی ابتدائی ردِ عمل کی بجائے مختلف برتا کرتے ہیں تو اس میں تخلیقی عنصر جنم لیتا ہے۔ اس کی مسلسل مشق ہماری سوچ کو لچکدار بناتی ہے اور یوں ہم کنویں سے باہر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اس ضمن میں جامعہ کیلفیورنیا کی پروفیسر لِلی زو، اور دیگر ساتھیوں نے رضاکاروں کے تین مختلف گروہوں کو دو یکساں تجربات سے گزارا اور ان کا سروے بھی کیا۔ پہلا سروے کالج کے 279 طلباوطالبات پر کیا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ ایموشنل ری اپریز