لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی نے کہا ہے کہ ایک ایسا شخص جس پر زندگی بھر کوئی مقدمہ نہ ہو اقتدار سے نکلتے ہی اس پر اتنے مقدمات کیوں درج ہوگئے؟ ایسی صورتحال میں عدالتیں خاموش تماشائی نہیں بن سکتیں۔ سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے خلاف 121 مقدمات میں کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواست میں ذاتی حیثیت میں لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔ فاضل جج نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ ہم نے آپ کی درخواست پڑھی ہے، پٹیشن اچھی ڈرافٹ کی گئی ہے لیکن درخواست میں زیادہ تر پی ٹی آئی کی کارکردگی کے بارے میں لکھا ہے۔ جسٹس باقر اور جسٹس عالیہ نیلم نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت دی کہ پٹیشن کے پیرا 7 سے آگے پڑھیں کیوں کہ اس سے پیچھے تو آپ نے درخواست گزار کے بارے میں ہی بتایا ہے۔ جسٹس عالیہ نیلم نے استفسار کیا کہ کیا 121 ایف آئی آر میں عمران خان نامزد ہیں ؟ عمران خان کے وکیل کا موقف تھا کہ عدالت مجھے پندرہ منٹ کا وقت دے میں اپنا سارا کیس عدالت کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ حکومت طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ سرکاری وکیل نے عمران خان کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات عدالت میں جمع کروادیں جس کے مطابق عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں 31، لاہور میں 30 ، فیصل آباد میں 14، بھکرمیں 6، شیخوپورہ میں 3، گجرانوالہ میں 2، جہلم میں 3، اٹک میں 4، راولپنڈی میں 10، بہاولپور میں 5، رحیم یار خان میں چار اور چکوال میں دو مقدمات درج ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان پر کوئٹہ، کراچی، وزیر آباد، میانوالی، ملتان، بہاولنگراور نارروال میں ایک ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ عمران خان کے بیرسٹر سلمان صفدر کا موقف تھا کہ عمران خان پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ مقدمات کو خارج کروانا چاہتے ہیں تو وہ نکات بیان کریں۔ وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ عمران خان کے خلاف ایک ہی مدعی یعنی پولیس کی مدعیت میں مقدمات درج کیے جارہے ہیں جو بھی واقعہ ہوتا ہے مقدمہ عمران خان پر درج کیا جاتا ہے اس کی مثالیں موجود ہیں، ظل شاہ قتل کیس، وزیر آباد حملہ کیس، ارشد شریف قتل کیس سمیت دیگر مقدمات کی مثالیں موجود ہیں۔ عدالت نے عمران خان کے وکیل کو ہدایت دی کہ آپ کیسز کی نشاندہی کری جب کہ جسٹس طارق سلیم نے استفسار کیا کہ آپ عمومی باتیں کررہے ہیں۔ وکیل عمران خان کا موقف تھا کہ کیسز ڈسچارج ہورہے ہیں ضمانتیں ہورہی ہیں کوالٹی تو اس سے پتا چل جاتی ہے، یہ کیس 71 سالہ شخص کا ہے جو پاکستانی شہری ہے اور اسے ہر روز ضمانت لینا پڑتی ہے جو ممکن نہیں ہے، ایک واقعے پر ایک سے زیادہ مقدمات درج کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے یہ سب سیاسی بنیادوں پر ہو رہا ہے تاکہ الیکشن نہ ہوں اور کیمپین نہ کی جا سکے۔ وکیل عمران خان نے کہا کہ ان مقدمات میں ایک ایسا مقدمہ بھی ہے جس میں 2500 افراد کے خلاف کیس بنایا گیا لیکن اس کیس میں صرف عمران خان نے ضمانت لی، اس وقت ایک روٹ لگا ہوا ہے جو ہاتھ آتا ہے اسے لاہور، کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ کا چکر لگوایا جاتا ہے یہ کوئی بس کا روٹ نہیں ہے بلکہ موجودہ دور میں سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔