لاہور: ہائی کورٹ نے 9 مئی واقعات میں ملوث ملزمان کی شناخت پریڈ میں تاخیر ہونے پر بڑا فیصلہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ ملزمان کی شناخت پریڈ 48 گھنٹوں میں مکمل کروائی جائے۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے صوبے بھر کے سیشن ججز اور اسپیشل کورٹس کو شناخت پریڈ کا عمل 48 گھٹنوں میں مکمل کرانے کا حکم دیتے ہوئے شہری محمد رمضان کی درخواست پر 13صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا ، جس میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار فیصلے کی کاپی تمام سیشن ججز اور آئی جی پنجاب کو بھجوائیں ۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ شناخت پریڈ کے پراسس میں تاخیر کی گئی، جس سے شہریوں کی آزادی پر قدغن لگائی گئی۔ ہر انسان کو عزت ،آزادی اور تحفظ کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے ۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین بھی شہریوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ گرفتاری، ملزم اور اس کے خاندان کے علاوہ بعض صورتوں میں معاشرے کیلیے بھی دور رس اثرات رکھتی ہے۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ لوگ سزا سے پہلے گرفتار اور سزا کے بعد گرفتار میں فرق نہیں کر پاتے۔ کسی شخص کی گرفتاری ٹھوس شواہد اور صرف اسی صورت ہونی چاہیے جب دوسرا کوئی راستہ نہ ہو ۔ بین الاقوامی انسانی حقوق نے بھی ٹرائل سے پہلے گرفتاری پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ کسی گرفتار ملزم کا بے گناہ ڈکلیئر ہونا ٹرائل سے پہلے گرفتاری کا درد ناک پہلو ہے ۔ بے گناہ شخص کیلیے ٹرائل سے پہلے گرفتاری کسی ٹراما تضحیک سے کم نہیں ہے۔ فیصلے میں عدالت نے تحریر کیا کہ کسی بھی ملزم کے لیے شناخت پریڈ کا عمل بہت اہم ہوتا ہے۔ شناخت پریڈ کا موجودہ عمل بہت ناکارہ ہے، اس عمل میں تاخیر سارے پراسس کو مشکوک بناتی ہے ۔ شناخت پریڈ کے عمل میں تاخیر بنیادی حقوق، تکریم اور فیئر ٹرائل کی خلاف ورزی ہے۔ آئینی عدالتیں آئین کے تحفظ کی ذمے دار ہیں۔ آئینی عدالتوں کو انتظامیہ کے اقدامات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فیصلے میں کہا کہ درخواست گزار 25 مئی سے شناخت پریڈ کیلیے جیل میں ہے۔ شناخت پریڈ میں تاخیر بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 9مئی کو کارکنوں نے توڑ پھوڑ کی، سرکاری اور پرائیوٹ املاک کو نقصان پہنچایا ۔ حالات پر قابو پانے کیلیے ڈپٹی کمشنر نے شہریوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کیے ۔ نظر بندی کے احکامات معطل ہونے پر افراد کو مقدمات میں نامزد کر کے گرفتاریاں کی گئیں۔ گرفتاری کے بعد ملزمان کو شناخت پریڈ کیلیے عدالت پیش کیا گیا ۔