تازہ ترین

امید ہے سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی: چیف جسٹس

امید ہے سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی: چیف جسٹس

اسلام آباد : سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد سپریم کورٹ کا 7 رکنی بنچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا اور 6 رکنی بنچ نے سماعت کا سلسلہ آگے بڑھایا۔‌چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‏توقع ہے کہ اس کیس کی سماعت کے دوران کسی سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا جائے گا، جو افراد گرفتار کئے گئے ان کی مکمل تفصیلات بھی فراہم کریں۔‌جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بنچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 6 رکنی بنچ نے دوبارہ کیس کی سماعت کی ، 6 رکنی لارجر بنچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔‌سماعت کے دوبارہ آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آ رہے ہیں۔‌چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیئے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔‌حامد خان نے کہا کہ میں اِن میں سے صرف ملٹری کورٹ والی استدعا پر فوکس کروں گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔ دریں اثنا درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ ملٹری کورٹس میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کر سکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ایف پی ایل ای کے ساتھ اس کیس کا کیا تعلق ہے؟ اپنے پہلے دن کے سوال پر جاؤں گی کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق کس پر ہوتا ہے؟‌جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا افواج کے افسران کا بھی ملٹری کورٹس میں کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا میں مخصوص حالات میں فوجی افسران کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ آرمی آفیشلز کے ٹرائل پر تھا۔‌جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک آرمی آفیسر کا بھی ملٹری کورٹس میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟۔‌سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کسی عدالت میں ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔‌چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا؟ سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہوگا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل ملٹری افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے، متعلقہ بات ہی کریں۔‌چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آرٹیکل 175 کی شق 3 کو بنیادی انسانی حقوق سے کیسے جوڑ رہے ہیں، اس کا اطلاق تو پھر فوجی عدالتوں پر بھی ہوگا، 175 کی شق 3 کا یہاں کیا تعلق ہے؟‌سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 کی شق 3 شفاف ٹرائل کی دی گئی ضمانتوں کے آرٹیکل 9 اور 10 کے ذریعے مؤثر ہوتی ہے، کسی شخص کو شفاف ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔‌چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کوئی عدالتی نظیر دکھا دیں، آرٹیکل 175 کیسے ملٹری ایکٹ سے منسلک ہے، ایک گھڑی ہے جسے گرینڈ کومپلیکیشن کہتے ہیں، آپ گرینڈ کومپلیکیشن نہ بنائیں، آپ اپنے دلائل مختصر اور صرف کیس سے متعلق دیں۔‌جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کی فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، جو اس سے مطابقت نہیں رکھتا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آپ آرمی ایکٹ کی شقیں چیلنج کر رہے ہیں لیکن وجوہات نہیں بتا رہے۔‌سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ ایک کیس میں یہ اصول طے کر چکی ہے کہ جوڈیشل امور جوڈیشری ہی چلا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے